پیپلزپارٹی۔ جواب دعویٰ اور سوالات…..حیدر جاوید سید
میں نے بھی تو یہی عرض کیا تھا کہ جب اسٹیبلشمنٹ ہم خیال نہیں تھی سید یوسف رضا گیلانی اکثریت رکھنے کے باوجود چیئرمین سینیٹ نہیں بن پائے
پاکستان پیپلزپارٹی کے دوستوں اور ہمدردوں کا خیال ہے کہ ’’پیپلزپارٹی عوامی جمہوریت سے طبقاتی جمہوریت تک‘‘ والے گزشتہ کالم میں ہم نے انصاف سے کام نہیں لیا۔ کہا گیا گڑھی خدا بخش کا قبرستان پارٹی قیادت کی قربانیوں اور کارکنوں کی استقامت سے عبارت ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس سے انکار کس نے کیا؟
عرض تو یہ کیا تھا کہ پیپلزپارٹی کو اپنی سیاست کے نتائج اور آج کی زمینی حقیقت ہر دو پر غور کرنا چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ ہماری دشمن ہے کا سودا مزید فروخت نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی کی باتوں اور کچھ حوالہ جات کا ذکر نہ بھی کریں تو کیا یہ حقیقت نہیں کہ اپریل 2022ء کی تحریک عدم اعتماد نے اسی اسٹیبلشمنٹ کو ازسرنو منظم و طاقتور ہونے کا راستہ اور موقع دیا جو پیپلزپارٹی کی دشمن تھی؟
میں نے بھی تو یہی عرض کیا تھا کہ جب اسٹیبلشمنٹ ہم خیال نہیں تھی سید یوسف رضا گیلانی اکثریت رکھنے کے باوجود چیئرمین سینیٹ نہیں بن پائے، اب ان کی چیئرمینی کیا اسٹیبلشمنٹ کے اعتماد کے بغیر ہے؟ کیا ہم یہ سمجھیں کہ یہ منصب ووٹوں کی طاقت سے ملا ہے؟
ہماری رائے میں ایسا ہرگز نہیں کہ جس اسٹیبلشمنٹ نے پہلے انہیں چیئرمین نہیں بننے دیا اب وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی۔
کیا 2013ء اور 2018ء کی طرح فروری میں انتخابی نتائج مینج نہیں ہوئے۔ ذاتی طور پر اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتا کہ مسلم لیگ (ن) کو فروری کے انتخابات میں صرف 17 سیٹیں ملیں باقی اسے چوری کرکے دی گئیں۔ 17 والا عدد انصافی لشکر نے اپنے قائد و پیشوا کے ایک سابق محبوب جنرل پرویز مشرف کے عہد سے لیا ہے۔
خیر چھوڑیئے یہ معاملہ ہمارا موضوع ہرگز نہیں۔ سوالات بہت سادہ ہیں اور یہ بات بھی کہ اگر سیاسی جماعت کوئی نظریہ رکھتی ہو تو سکیورٹی اسٹیٹ میں جدوجہد سے قربانیوں کی فصل کاشت کرتی ہے پی پی پی کی قیادت نے قربانیاں دیں اور کارکنوں نے بھی نیلے آسمان کے نیچے جئے بھٹو کے دیوانہ وار نعرے لگاتے ہوئے پھانسی گھاٹ کی طرف بڑھنے اور جمہوریت زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے پھانسی کے تختہ پر جھول جانے والے اس ملک کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔
سوال مختلف ہے بلکہ ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ سیاسی عمل میں مذہبی تڑکے لگانے میں خود پیپلزپارٹی بھی پیش پیش رہی۔ اسلام ہمارا دین ہے، مسلمانوں کے ملک میں سیاسی جدوجہد کیلئے بنائی جانے والی سیاسی جماعت کو کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ مسلمانی کا اقرار پارٹی کے چار بنیادی سلوگن میں سے ایک کے طور پر منشور کا حصہ بنانا پڑا ؟۔
بہت احترام کے ساتھ عرض ہے کہ پیپلزپارٹی کبھی بھی ایک سوشلسٹ یا کمیونسٹ پارٹی نہیں تھی اپنے قیام کے دن سے یہ ایک وفاق پرست قومی جمہوری جماعت تھی سادہ لفظوں اور آج کی تشریحات میں ایک سنٹرل لبرل قومی جمہوریت جماعت جس نے اسلام اور ترقی پسندی دونوں کو ایک ایک ہاتھ سے تھام رکھا تھا۔
اس نئی طرز فکر کے نتیجے میں دیسی سوشلسٹ و کمیونسٹ ہی نہیں بلکہ دیسی اسلام پسند تینوں اسے آج بھی معاف کرنے کو تیار نہیں۔
معاف کیجئے گا ہمارا موضوع قدرے مختلف ہے۔ اعتراض کرنے والے دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ پارٹی کا ایک دور اقتدار بتادیجئے جب اسٹیبلمنٹ نہ چاہتی ہو اور عوام کی طاقت نے پیپلزپارٹی کو ایوان اقتدار تک پہنچادیا ہو؟
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد 1971ء میں ملنے والا اقتدار پی پی پی کی عوامی اور پارلیمانی قوت سے زیادہ فوج میں بڑی بغاوت کو روکنے کے لئے تھا اس اقتدار کی بدولت فوج جیسے ہی مضبوط ہوئی پی پی پی ایوان اقتدار سے نکال باہر کردی گئی اور پھر بھٹو پھانسی چڑھادیئے گئے
لیکن کیا 1988ء کا اقتدار اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتے کے بغیر مل گیا تھا؟
غلام اسحق خان کی صدارت صاحبزادہ یعقوب علی خان کی وزارت خارجہ اور وی اے جعفری کی مشیر خزانہ کے طور پر تقرری سمجھوتے کا حصہ نہیں تھی ؟ ۔
کیا 1993ء میں نوازشریف حکومت کی برطرفی اور میر بلخ شیر مزاری والی 36 دن کی حکومت میں پی پی پی نے اسٹیبلشمنٹ سے تعاون نہیں کیا؟
چلیں دو ہزار دو میں اقتدار نہیں ملا مگر پارلیمانی عددی اعتبار سے دوسری بڑی پارٹی نے قومی اسمبلی کی اپنی 12 نشستیں چرائے جانے اور پھر فورتھ پی کے قیام ہر دو پر احتجاج کا راستہ اختیار کیوں نہ کیا ؟
ناراض نہ ہوں تو عرض کرو کیا جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں نوازشریف حکومت کی برطرفی کا پی پی پی نے خیرمقدم نہیں کیا تھا ، حضور یہ خیرمقدم کیا اسٹیبلشمنٹ کو مس کال نہ تھی؟
اس پر دو آراء نہیں کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے سفاکانہ قتل میں جنرل پرویز مشرف اور جنرل اشفاق پرویز کیانی مقامی سہولت کار تھے پھر کیا وجہ ہوئی کہ جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں حلف لیا گیا اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کو تین سال کی توسیع دی گئی اور جنرل شجاع پاشا پر بھی توسیع کی نوازشات ہوئیں؟
اس حد تک بات درست ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے جنازے اور سوئم پر لگنے والے بعض نعروں نے ریاست کی بنیادیں ہلاکر رکھ دی تھیں آصف علی زرداری جواباً پاکستان کھپے کا نعرہ نہ لگاتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی مگر یہ کہنا کہ اگر اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد نہ لائی جاتی تو عمران اینڈ کمپنی 2030ء تک کا بندوبست کرچکی تھی۔ یا یہ کہ ملک ٹوٹنے کا خطرہ تھا۔
ٹوٹ جاتا تا کون سی قیامت برپا ہوجاتی؟
پیپلزپارٹی سے اسٹیبلشمنٹ کے نفرت بھرے کردار سازشوں اور بھٹو و بینظیر بھٹو کے قتل ان میں سے کسی بات سے انکار نہیں مگر یہ کہنا کہ ہم ہر اعتبار سے تاریخ کی درست سمت کھڑے ہیں درست نہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں سبھی کی تاریخ اور درست سمت اپنے اپنے ہیں۔
ہم سیاسیات و تاریخ کے ادنیٰ طالبعلم کے طور پر اس امر سے بھی متفق نہیں کہ چونکہ پنجاب میں پی پی پی کی اصل حریف مسلم لیگ (ن) تھی سو جب پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (ن) سے سیاسی روابط و تعلق استوار کئے تو جیالوں کے ایک بڑے طبقے کے پاس پی ٹی آئی میں جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔
کیا پیپلزپارٹی سنٹرل لبرل قومی جمہوری پارٹی تھی یا شخصی نفرت پر قائم جماعت؟
اعتراض کرنے والوں نے کبھی اس امر پر غور کی زحمت کی کہ بھٹو کے قتل میں معاون پی این اے کی بعض جماعتوں کےساتھ پیپلزپارٹی ایم آر ڈی میں بیٹھی اور مل کر جدوجہد کی۔
کیا جنرل پرویز مشرف کے خلاف بننے والے سیاسی اتحاد اے آر ڈی میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بیٹھنے کا فیصلہ محترمہ بینظیر بھٹو کا نہیں تھا؟
کیا ملکی سیاست میں در آئی نفرت کے خاتمے کے لئے محترمہ بینظیر بھٹو نے سرور پیلس جدہ میں جلاوطنی کے دوران مقیم شریف خاندان سے ملاقات نہیں کی اور کیا مسلم لیگ (ن) سے میثاق جمہوریت محترمہ بینظیر بھٹو نے نہیں کیا؟
اب ایک سادہ سا سوال ہے وہ یہ کہ کیا پیپلزپارٹی اپنے کارکنوں اور ہمدردوں کی سیاسی تربیت نہیں کرپائی کہ جونہی اس نے مسلم لیگ (ن) سے اتحادی سیاست کو آگے بڑھایا وسطی پنجاب اور بعض دیگر علاقوں سے اس کے کارکنوں اور ہمدردوں کی بڑی تعداد تحریک انصاف کی طرف مراجعت کرگئی؟
ایسا ہی ہے تو پھر غور کرنے کی اشد ٗضرورت ہے۔
ہم البتہ اس امر کے ہم خیال ہیں کہ سیاست میں ذاتی دشمنیاں نہیں ہوتیں۔ ذاتی دشمنیوں کی سیاست کی موجد اسٹیبلشمنٹ ہے وہی اس کی ذمہ دار کیونکہ اپنے تام جھام کے لئے اس نے مختلف اوقات میں مختلف تجربے کئے۔
مقصد ریاست کے اقتدار اعلیٰ اور وسائل ہر دو کا مرضی سے استعمال ہے۔
محترمہ بیگم نصرت بھٹو نے ایم آر ڈی اور محترمہ بینظیر بھٹو نے ایم آر ڈی کے بعد پی ڈی ایف اور پھر اے آر ڈی نامی سیاسی اتحادوں میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔
پنجاب میں نوازشریف ہمارا مخالف تھا والی بات پر اڑے دوستوں نے اگر محترمہ بینظیر بھٹو کی زندگی میں اے آر ڈی اور میثاق جمہوریت ہر دو پر اعتراض و احتجاج کیا ہو تو براہ کرم آگاہ کیجئے۔
ہم اس پر مزید بات بھی کریں گے کیونکہ پی پی پی کے دوستوں اور چھوڑ جانے والے احباب کی آراء طالبعلم کو موصول ہورہی ہیں۔