کالمزپیر مشتاق رضوی

مذاکرات کے پس پردہ ڈھیل یا ڈیل ۔۔؟؟….. پیر مشتاق رضوی

نو مئی سے 26 نومبر تک حکومت اور اداروں کو دباؤ میں لانے کے لیے انہوں نے اپنی محاذ آرائی کی سیاست کو انتہا تک پہنچایا

جب سے پی ٹی ائی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا ہے ان مذاکرات پر طرفین میں بڑی لے دے ہو رہی ہے ایسا لگتا ہے کہ فریقین مذاکرات مجبوری کے تحت کر رہے ہیں حالانکہ حکومتی اتحادی شروع سے ہی مذاکرات کے لیے دعوت دیتے چلے ائے ہیں حکومت کی طرف سے بھی متعدد بار سیاسی استحکام کے حوالے سے میثاق معیشت پر مذاکرات کی پیشکش کی گئی أٹھ فروری 2024ھ کے عام انتخابات کے بعد دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ کے میاں محمد نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین أصف علی زرداری صدر مملکت عمران خان کوبار بار مذاکرات کی دعوت دی لیکن عمران خان چور اور ڈاکوؤں کے ساتھ بات کرنے کو ہرگز راضی نہ ہوئے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مینڈیٹ چوری کیا گیا اور اس کے نتیجہ میں بننے والی جعلی حکومت کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتے عمران خان اپنے اس بیانیہ پر سختی سے قائم و دائم رہے عمران خان رجیم چینج کے بعد محاذآرائی کی سیاست پر اتر آئے انہوں نے اپنے مخالفین اور اداروں کو دباؤ میں لا کر سیاست کی جس کی وجہ سے وہ مقبول ترین لیڈر بن گئے
نو مئی سے 26 نومبر تک حکومت اور اداروں کو دباؤ میں لانے کے لیے انہوں نے اپنی محاذ آرائی کی سیاست کو انتہا تک پہنچایا عمران خان کی اخری کال تک کی مہم جوئی ریاست کے لیے ناقابل نقصان کا باعث بنی اداروں کی تضحیک اور سیاست دانوں کی کردار کشی سے ملک میں سیاسی سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا پی ٹی ائی سمجھتی تھی کہ کہ شدید سیاسی دباؤ کی وجہ سے ہائیبرڈ حکومت زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گی لیکن ہائیبرڈ حکومت کو لانے والوں نے دیرپا معاشی منصوبہ بندی کی حکومت کے موثر معاشی اقدامات کے نتیجے میں ملک میں معاشی استحکام آیا اور ملک کی معشیت پٹڑی پر چل پڑی اس کا اعتراف بانئ پی ٹی ائی عمران خان نے بھی کیا ہے کہ حکومت نے ملک کی معشیت کو سنبھال لیا ہے
پی ٹی ائی کی محاذ ارائی کی سیاست کی وجہ سے ملک میں بدستور غیر یقینی کی صورتحال رہی یہی وجہ ہے کہ پی ٹی ائی پر انتشار اور فتنہ کی سیاست کا الزام ہے کہ نوجوان نسل کو ففتھ جنریشن وار کا حصہ بنایا اور ملک میں ڈیجیٹلائزڈ دہشت گردی کو عام کیا قومی سلامتی اداروں پر تسلسل کے ساتھ الزام تراشیوں اور ریاست کو بدنام کرنے سے ملک میں دہشت گردی نے پھر سے سر اٹھایا ہے عمران خان کی سیاست سے وہ خود ، ان کی پارٹی کی لیڈرشپ اور کارکنان بھی انتہائی مشکلات کا شکار ہیں ریکارڈ تعداد میں مقدمات قید و بند کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تقریبا ڈیڑھ سال سے بانئ پی ٹی ائی بھی جیل میں ہیں اس سے قبل متعدد بڑے مقدمات میں عمران خان کو عدالتوں سے ریلیف بھی ملا بشری’ بی بی کی رہائی بھی ایک ڈیل کا نتیجہ بتائی جاتی ہیں وزیراعلی کے پی کے علی امین گنڈا پوری بیک ڈور چینل کی تصدیق کر چکے ہیں جبکہ اس سلسلے بشری’ بی بی کی پراسرار سرگرمیاں بھی جاری ہیں لیکن 190 ملین پاؤنڈ کا مقدمہ کی تلوار ان کے سر پر لٹک رہی ہے اس مقدمے کے فیصلے کے بعد بھی عمران خان مذاکرات پر آمادہ نظر آتے ہیں یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ عمران خان اداروں کو دباؤ میں لانے میں ناکام ہوئے اور خود انتہائی دباؤ کا شکار ہو گئے جس کی وجہ سے وہ سیاسی قوتوں سے مذاکرات پر مجبور ہوئے ہیں جب کہ اس سے پہلے وہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنا چاہتے تھے شاید 2018ء کی طرح اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل چاہتے تھے لیکن اسٹیبلشمنٹ براہ راست کسی بھی سیاسی مذاکرات سے گریز کرتی ہے جب کہ عمران خان کے میر جعفر اور میر صادق کہ بیانیہ نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کو آخری حد تک بگاڑ کر رکھ دیا تھااور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مطالبہ کے باوجود ڈنڈے والوں سے مذاکرات تو نہ ہوئے لیکن 26 نومبر کو ڈنڈے والوں نے ڈنڈا چلا کر محاذ آرائی کی سیاست کا خوب سدباب کیا مذاکرات میں حکومت کی طرف سے اس کے بعد پی ٹی ائی کی قیادت نے جان لیا کہ دیواروں سے ٹکرانا بیکار ہے اور مذاکرات کو غنیمت سمجھا مذاکرات میں حکومت کی طرف سے کوئی پیشگی مطالبات نہیں رکھے گئے لیکن پی ٹی ائی کی طرف سے صرف دو مطالبات رکھے گئے ہیں جنہیں مذاکرات کے تیسرے دور میں تحریری طور شکل میں پیش کیا جائے گا پی ٹی ائی کا پہلا مطالبہ کارکنان اور رہنماؤں پر مقدمات کا خاتمہ اور ان کی رہائی ہے جبکہ دوسرا مطالبہ نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشنل کمیشن قیام کا مطالبہ ہے طرفین مذاکرات ضرور کر رہے ہیں لیکن دو طرفہ خود اعتمادی کا فقدان نظر اتا ہے حکومتی اتحادی مذکرات کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہیں وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ کہنا تھا کہ ایسا کیا ہوا کہ چوروں اور ڈاکوؤں کے ساتھ بات نہ کرنے والا 15 دن میں مذاکرات پر راضی ہو گیا ؟جبکہ پیپلز پارٹی جرم اور سیاست کو الگ الگ رکھنا چاہتی ہے اور مذاکرات کے نتیجے کو متوقع نیا این آر او قرار دے رہی ہے مسلم لیگ ن ،نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو منطقی انجام تک پہنچانے کے مؤقف پر سختی سے قائم ہے اس دوران مذاکرات میں ڈیڈ لاک اور تعطل کی باتیں بھی ہوتی رہیں اور ایک دوسرے کو مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار بھی قرار دیا جا رہا ہے اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے بیان بازی بھی جاری ہے لیکن مذاکرات سے قبل ہی نتائج کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کیونکہ پی ٹی ائی نے بڑا یو ٹرن لے کر مذاکرات کی ٹیبل تک پہنچنے کے لیے اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے اور اسے بہت کچھ گنوانا بھی پڑ سکتا ہے کیونکہ پی ٹی ائی نے اپنے مینڈیٹ _ اتنخابی اصلاحات اور 26ویں آئینی ترمیم کی واپسی کے مطالبے کو پس پشت ڈال کر صرف دو مطالبے پیش کیے ہیں اپنے دیرینہ مطالبات سے دستبرداری مقتدرہ سے ہم أہنگی کا نتیجہ ہو سکتی ہے جبکہ حکومت کو ان مذاکرات سے کافی حد تک ریلیف ملا ہے مذاکرات میں انگیجمنٹ سے بیرونی پریشر کو کم ہو جائے گا مذاکرات کی ٹیبل تک انے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی ائی نے ہائبرڈ حکومت کو تسلیم کر لیا ہے اور میثاق معیشت پر راضی ہو چکی ہے تاکہ نظام کو چلنے دیا جا سکے اس کے بدلے بانئ پی ٹی ائی جلد از جلد جیل سی رہائی چاہتے ہیں کیونکہ ان کی اخری کال 26 نومبر کو وفاق پر چڑھائی کی مہہم جوئی بانئ پی ٹی ائی کی جیل سے رہائی کے لیے تھی جو کہ لاحاصل رہی اور الٹے گلے پڑ گئی جبکہ پانی پی ٹی ائی یہ بھی نہیں چاہتے کہ بشری’ بی بی دوبارہ جیل جائیں اور ہو سکتا ہے کہ اس ڈیل کے نتیجے میں بانئ پی ٹی ائی کو مجوزہ سب جیل بنی گالہ میں منتفل کر دیا جائے مذاکرات کے پس پردہ یہ سب اشاریے ملتے ہیں لیکن 190ملین پاؤنڈ کیس کے فیصلہ کو تیسری بار مؤخر کرنے کا سبب بھی یہی نظر آتا ہے کہ بانئ پی ٹی ائی کی طرف سے محاذآرائی اور انتشار کی سیاست سے گریز کرنے کی یقین دہانی کرائی جانی مقصود ہے بصورت دیگر 190 ملین پاؤنڈ کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا اور نو مئی کے سانحہ میں ملوث کرداروں اور اسکے ماسٹر مائنڈ کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گااور منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا مذاکرات کا تیسرا دور جاری ہے دونوں طرف سے فیصلہ کن نتائج پر پہنچنے کے لیے ٹائم لیا جا رہا ہے اسی لئے شاید یہ مذاکرات ایک طویل عرصے تک جاری رہیں گے جبکہ مذاکرات کی کامیابی اور ناکامی کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button