![](https://vogurdunews.de/wp-content/uploads/2025/01/96d29da026a114377e00e8c38ccb09ad.jpg)
عاشقِ جاتی امراء شریف ، حافظ جی قبلہ…..حیدر جاوید سید
خدانخواستہ ہم حافظ جی کو بوڑھا ہرگز نہیں قرار دے رہے ورنہ ’’انجمن متاثرین مسینجرز‘‘ نے آسمان سر پر اٹھالینا ہے
’’مومنہ‘‘ والے حافظ جی دلچسپ آدمی ہیں۔ لسانیات کے میدان میں وہ اردو زبان کے ارطغرل ہیں مقامیت اور مقامی زبانوں کے ایسے ویری کہ جب چاہیں کشتوں کے پشتے لگاکر کہہ دیں ’’حضوراور کچھ ہمارے لائک ؟‘‘ (ن) لیگ کے مرنجا مرنج نہیں بلکہ "بھڑکیلے ” عاشق ہیں اس عشق کی ایک وجہ ایسا قومی راز ہے جو ’’آئوٹ‘‘کرنا یوتھیاپا ہوگا۔ فقیر راحموں کہتا ہے دو طرح کے عشق بڑے خطرتاک ہوتے ہیں ایک لونڈوں لپاڑوں والی عمر کا اور دوسرا بوڑھاپے کا۔
خدانخواستہ ہم حافظ جی کو بوڑھا ہرگز نہیں قرار دے رہے ورنہ ’’انجمن متاثرین مسینجرز‘‘ نے آسمان سر پر اٹھالینا ہے اس وقت ایک مشہور زمانہ سستا سا پنجابی گانا یاد آرہا ہے مگر کیا کیجئے وہ بھی یہاں عرض کرنے میں واحد امر مانع یہ ہے کہ ’’ارے میاں اخلاق بھی کوئی چیز ہوتی ہے‘‘۔
بھٹوز کے جانی دشمن ہیں۔ اس کی ایک خاص وجہ ہے وہی جو اکثر لوگوں کو مقامیت سے ہوتی ہے۔ برسوں ’’دین دار‘‘ رہے اب بھی ’’دیندار‘‘ ہی ہیں۔ ریش مبارک کو اعتدال میں لانے کے سوا انہوں نے خیر کا کوئی دوسرا کام کیا ہو تو کم از کم وہ ہمیں معلوم نہیں۔
ہمارے ہاں صدیوں سے پرواز کرتی ایک متھ یہ ہے کہ ایک حافظ سات پشتیں بخشوالے گا۔ لیکن حافظوں کو دیکھ سن کر بے ساختہ منہ سے یہی نکلتا ہے کہ ’’لگدے تے نئیں پر خورے”
ان (حافظ جی) کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتی ہیں بالکل ٹرک ہوٹلوں کی کڑک چائے کی طرح۔ جملے بازی میں اپنی وضع کے آخری سے پہلے آدمی ہیں۔ آخری سے پہلے اس لئے کہ جملہ اچھال کر وہ فساد خلق خدا کا انتظار نہیں کرتے بلکہ ’’سرپٹ‘‘ ہولیتے ہیں۔
ان کا خیال بلکہ ایمان یہ ہے کہ پاکستان کو سیدھے راستے پر صرف میاں محمد نوازشریف آف جاتی امراء نے ڈالا۔ وہ تو شکر ہے کہ میاں نوازشریف اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے جب حضرت محمد علی جناح بٹوارے کے مشن پر سرگرم تھے ورنہ میاں صیب کبھی بھی لُولا لنگڑا پاکستان جناح کو نہ لینے دیتے بلکہ وہ اس نقشے کو سلطان کی سرائے میں واقعہ ’’اتفاق فونڈری‘‘ میں ڈھال کر ایسا دم پخت کردیتے کہ بھٹو اور مجیب الرحمن اسے توڑ ہی نہ سکتے یوں آج بھی بنگالی بھائی ہماےر پاس ہوتے اور قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے دس بارہ رکن سماں باندھے رکھتے۔
آپ بالائی سطور کی آخری بات کا تعلق حافظ صاحب سے ہرگز مت جوڑلیجئے گا کیونکہ وہ بھی الحمدللہ جماعت اسلامی کے فکری نظری اور بشری مخالف ہیں ان کے خیال میں یوں کہہ لیجئے ایمان کا دسواں نکتہ یہ ہے کہ جو جاتی امراء کا نہیں وہ ہمارا کیا پاکستان کا بھی نہیں۔
ان کا پاکستان سرسید احمد خان سے شروع ہوکر محترمہ مریم نوازشریف پر تمام ہوتا ہے۔ اب یہ نہ کہہ دیجئے گا کہ کہاں سرسید احمد خان اور کہاں محترمہ مریم نوازشریف صاحبہ۔
ہم نے بھی کبھی ان کی اس پسند پر اعتراض نہیں کیا کیونکہ ہم جمہوریت پسند ہیں اور حافظ جی ’’طبقاتی‘‘ جمہوریت پسند۔ کچھ دیر قبل انہوں نے انکشاف کیا کہ صدر آصف علی زرداری کے دورہ چین کے دوران میاں محمد نوازشریف نے حاجی اسحاق ڈار کو بطور نگران ساتھ بھیجا ہے تاکہ کوئی گڑبڑ گھٹالہ نہ کرنے پائیں زرداری صیب ۔
یہ بھی فرمایا کہ زرداری کے دورہ چین اور بلاول بھٹو کے دورہ امریکہ ہر دو کی نہ صرف میاں نوازشریف نہ منظوری دی بلکہ زرداری کو خود بریفنگ دی اور بلاول کو پرچیاں مریم اورنگزیب کے ہاتھ بھجوائیں۔
ہماےر وکیل بابو دوست کا سوال ہے کہ پرچیاں بھجوانے کے لئے مریم اورنگزیب صاحبہ ہی کیوں؟
راوی کہتا ہے کہ جب میاں محمد نوازشریف سابق سول سپرمیسی والے ، آصف علی زرداری کو دورہ چین کے لئے بریفنگ دے رہے تھے تو انہوں نے بطور خاص زرداری کو ہدایت کی کہ اگر کوئی بات بھول جائیں تو حاجی محمد اسحاق ڈار سے پوچھ لیجئے گا۔ جواب میں زرداری نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا حاضر سائیں میاں صاحب!
راوی کی روایت کے مطابق محترمہ مریم اورنگزیب صاحبہ نے بلاول بھٹو کو میاں صاحب کی پرچیاں پہنچانے کے ساتھ انہیں لکھی ہوئی تقریر بھی شیشے کے سامنے کھڑا کرکے یاد کروائی تاکہ زیرزبر کی کوئی غلطی نہ رہ جائے۔
حافظ جی اور راوی کی طرح ہمارے چند اور بھی پیارے محترم اور دلنواز ملتانی دوست میاں نوازشریف کی عظیم قائدانہ صلاحیتوں کے معترف ہیں صرف معترف ہی نہیں بلکہ وہ جب فضائل نوازشریف بیان کرتے ہیں تو ہمیں مرحوم شیعہ ذاکرین اللہ ڈتہ زوار اور ریاض ترابی یاد آجاتے ہیں۔
اللہ ڈتہ زوار اور ریاض حسین ترابی مرحوم کی مجلسوں میں بیان فضائل کے وقت داد نہ دینے والوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک ہر دو ذاکرین کرتے تھے تقریباً ویسا ہی سلوک ہمارے عاشقان سول سپرمیسی والے دوست بھی کرتے ہیں۔
ان میں سے ایک دوست کو تو میں اکثر عرض کرتاہوں کہ آپکے بیان کردہ فضائل نوازشریف کی وجہ سے ہم ’’انہیں‘‘ کچھ نہیں کہتے۔
معاف کیجئے گا بات حافظ جی قبلہ سے شروع ہوئی اور اِدھر اُدھر لڑھک گئی۔ خیر کوئی بات نہیں اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ حافظ جی قبلہ کہتے ہیں کہ زرداری کو صدر میاں نوازشریف کی مہربانی سے بنایا گیا ورنہ مسلم لیگ کے پاس اس عہدے کے لئے امیدوار بہت تھے۔
اللہ جانتا ہے کہ ہم ان کے اس دعوے کو بالکل بھی مشاہد حسین سید کے حالیہ چند دعوئوں کا پاسنگ بھی نہیں سمجھتے۔ مشاہد حسین سید تین جنم اور لے لیں تب بھی ان پر حافظ جی کی چھینٹ بھی ظاہر نہیں ہوگی۔ البتہ دونوں کو زندہ رہنا خوب آتا ہے۔
آجکل مشاہد حسین سید بھی سستے یوٹیوبرز بنے پھرتے ہیں۔ اچھا خاصا صاحب مطالعہ نجیب آدمی کب اور کیسے تباہ ہو جائے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
حافظ صاحب مشاہد حسین سید کی طرح الٹی زقندیں لگاتے ہیں نہ موسموں اور حالات کے ساتھ پارٹیاں بدلتے ہیں ان کی پارٹی مسلم لیگ (ن) ہے وہ اسے ہی بٹوارہ کی ذمہ دار آل انڈیا مسلم لیگ کا وارث حقیقی سمجھتے ہیں سرسید احم خان ان کا پہلا دائمی عشق تھے اور ہیں۔ جناح صاحب دوسرااور جاتی امراء شریف تیسرا عشق ہے۔ پہلے اور تیسرے عشق میں مشترکات آپ اپنی ذمہ ادریوں پر تلاش کیجئے ادارہ ہذا کا مراسلہ نگاران کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ادارہ ہذا سے یاد آیا حافظ صاحب قبلہ بھی ایک ادارے میں وڈے افسر ہیں اب یہ نہ سمجھ لیجئے گا کہ وہ کوئی خفیہ ادارہ ہے عام سیدھا سادہ سرکاری بلکہ اب حکومت و نجی شراکت داری والا ادارہ ہے۔
بات ہورہی تھی صدر زرداری کے دورہ چین کی جس کی نگرانی کے لئے حاجی اسحق ڈار کو بطور خاص ساتھ بھجوایا گیا۔ میاں صاحب (وڈے) چاچا فورمین اور محترمہ مریم نوازشریف چینی قیادت سے سارے معاملات پہلے طے کرچکے تھے چونکہ پورا ٹبر بڑے دل کا مالک ہے اس لئے سوچا اور فیصلہ کیا گیا کہ کچھ نمبراتحادی جماعت پیپلزپارٹی کو بھی ٹنگ لینے دیئے جائیں۔
فقیر راحموں اس سارے معاملے کے حوالے سے جو کہہ رہا ہے وہ فساد دوستاں سے محفوظ رہنے کے لئے یہاں رقم نہیں کررہے۔ مروت بھی تو ضروری ہے۔
یہاں مروت مروت کے معنوں میں ہی ہے شیر افضل مروت کے معنوں میں نہیں ویسے بھی حافظ جی کی کسی بات کو شیر افضل مروت سے تشبیہ دینا ’’زیادتی‘‘ ہوگی۔
دوسرے بہت سارے "دینداروں” کی طرح حافظ جی کا بھی ’’کُلِ ایمان‘‘ یہی ہے کہ پاکستان بھٹو (ذوالفقار علی بھٹو) نے توڑا تھا اس وقت اگر بھٹو کی جگہ میاں نوازشریف جاتی امراوی دائم برکاۃ سیاست میں ہوتے تو پاکستان اتفاق فونڈری کی طرح محفوظ ہوتا۔
ہمیں اکثر یہ خوف رہتاہے کہ کہیں حافظ جی یہ دعویٰ نہ کردیں کہ قرارداد لاہور المعروف قرارداد پاکستان پیش کرنے کے لئے منٹو پارک لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا جو دو روزہ اجتماع منعقد ہوا تھا اس کا سارا خرچہ میاں محمد شریف کے والد میاں رمضان نے اٹھایا تھا۔
آپ یقین کیجے ہمیں میاں محمد نوازشریف جاتی امراوی اس لئے اچھے لگتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تاریخ پیدائش درست کرواکے 25 دسمبر کرلی ہے۔
خیر یہ 25 دسمبر والی بات ایک الگ موضوع ہے ویسے میاں صاحب سے پہلے ہم 25 دسمبر کو اپنے علاوہ پیدا ہونے والے دو تین اشخاص کو جانتے تھے، حضرت عیسیٰؑ، ارشاد احمد امین مرحوم اور اداکارہ نیلی صاحبہ ۔
بہت معذرت بات پھر دوسری جانب نکل پھڑک گئی۔ چلیں کوئی بات نہیں
” اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں” ۔