کالمزپیر مشتاق رضوی

بلوچ دہشت گردوں کا ٹرین پر حملہ ، کھلی جنگ کا اعلان ۔۔!!پیر مشتاق رضوی

پاکستان کی سالمیت کے خلاف یہ ایک کھلی جنگ کا اعلان تھا لیکن بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اور حکمرانوں نے اس کی مکمل سرکوبی کے لیے کوئی سنجیدگی اختیار نہیں کی

ماہ رواں کے آغاز پر بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) کا ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں اتحادی تنظیموں، بلوچ لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ ریپبلکن گارڈز، اور سندھی آزادی پسند تنظیم سندھو دیش ریولوشنری آرمی کے وفود نے شرکت کی۔
جس میں بلوچ قومی تحریک کو ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل کرنے کے لیے اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔

اس اجلاس کے بعد جاری پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ براس مستقبل قریب میں بلوچ قومی فوج کی شکل اختیار کرے گا پاکستان اور چین کے خلاف جنگ میں مزید شدت اور جدت لانے کے مذموم عزم کا اظہار کیا گیااجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان اور چین کے خلاف جنگ میں مزید شدت اور جدت لائی جائے گی۔گوریلاکارروائیوں کو جدید عسکری حکمت عملی کے مطابق منظم کیا جائے گا تاکہ دشمن کے لیے مزیدنقصانات پیدا کیے جا سکیں، جبکہ جنگی محاذ پر کے مؤثر استعمال کے ذریعے "براس” کی جنگی برتری کو مزید مستحکم کیا جائے گا۔ بلوچ علیحدگی پسند دہشت گردوں کی طرف سے پاکستان کی سالمیت کے خلاف یہ ایک کھلی جنگ کا اعلان تھا لیکن بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اور حکمرانوں نے اس کی مکمل سرکوبی کے لیے کوئی سنجیدگی اختیار نہیں کی ہمارے وزیر داخلہ کا یہ کہنا تھا کہ "بلوچ دہشت گرد صرف ایک ایس ایچ او کی مار ہیں” لیکن گلذشتہ روز بلوچ سرم چارون کی طرف سے بلوچستان میں جعفر ٹرین پرحملہ اورسینکڑوں مسافروں کو اغوا کرنے کےواقعہ نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیااور دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی کالعدم تنظیم کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے مطالبات اور مذاکرات کے حوالے سے صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ اس حساس معاملے کی تفصیلات باہر آئیں۔
’حکومت مغویوں کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور اس میں احتیاط سے کام لیا جا رہا ہے۔‘ظہور احمد بلیدی نے تسلیم کیا کہ ’بلوچستان میں سکیورٹی کی صورتحال اتنی اچھی نہیں ہے حکومت اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں۔ ہم کوشش کررہے ہیں۔ لیکن اتنا بڑا صوبہ ہے اس میں اونچ نیچ ہو جاتی ہے۔‘ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کالعدم عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے ٹرینوں پر حملے، سڑکوں پر گاڑیوں سے لوگوں کو اتار کر شناختی کارڈ چیک کرکے جان سے مارنے اور بم دھماکوں جیسے واقعات عام ہیں، مگر اس طرح ٹرین پر حملہ کر کے مسافروں کو یرغمال بنا لینا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ جعفر ایکسپریس ٹرین کے اغوا کا دنیا میں چھٹا واقعہ ہے پہلا واقعہ1923ءمیں چین میں سابق فوجیوں کے ایک گینگ نے ٹرین اغوا کی 25 مغربی مسافروں اور ایک امریکی سنیٹر کی بیٹی سمیت 300 مسافر اغوا کر لئے تھےانڈونیشیا کے ملوکنز محاذ نے دو بار 1975ء اور پھر 1977ء میں ہالینڈ میں علیحدہ ملک کے لئے ٹرینیں اغوا کیں۔
بھارت میں پہلی بار 2009ء میں ماؤسٹ علیحدگی پسندوں نے جنگل محل کے قریب ٹرین اغوا کی۔ ‏2013ء میں رائے پور کے قریب سرونا ریلوے سٹیشن کے قریب سافر ٹرین اغواکی۔ پاکستان مین جعفر ایکسپریس کے اغوا کا یہ دنیا میں چھٹا واقعہ ہے۔بلوچستان میں ٹرینوں پر مسلح حملوں کے حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق ’کچھ عرصہ پہلے تک کالعدم بلوچ عسکریت پسند گروہوں نے سڑکوں پر ناکہ بندی کر کے مختلف لوگوں کو شناخت کے بعد قتل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور اب ان گروپوں نے ٹرینوں کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔نہ صرف متاثرہ ٹرین جعفر ایکسپریس پر اس سے قبل کئی بار حملے ہوچکے ہیں بلکہ تھنک ٹینک ’ساؤتھ ایشیا ٹیرارزم پورٹل‘ کے مطابق بلوچستان میں ٹرینوں پر حملے 2005ء سے ریکارڈ کیے گئے، مگر ان حملوں میں شدت 2011ء کے بعددیکھی گئی۔رپورٹ کے مطابق 2005ء سے 2017ء کے درمیان صوبے میں ٹرینوں پر 64 حملے ہوئے۔2006ء میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ریلوے ٹریکس کو دھماکوں سے نقصان پہنچایا گیا، جس سے کئی چلتن ایکسپریس سمیت ٹرینیں متاثر ہوئیں۔2008ء میں کوئٹہ کے قریب ریلوے لائن کو نشانہ بنایا گیا، جس سے ایک مسافر ٹرین کو نقصان پہنچا۔2011ء میں بلوچستان کی حدود میں ٹرینوں پر 14 حملے ہوئے۔
اس کے علاوہ 2013ء اور 2015ء میں کوئٹہ سمیت صوبے کے کئی علاقوں میں ریلوے ٹریکس کو دھماکوں سے اڑا دیا گیا، جس کے نتیجے میں مسافر بردار اور مال گاڑیوں کو نقصان کے ساتھ متعدد افراد زخمی ہوئے۔2017ء میں مستونگ کے قریب ریلوے ٹریک پر دھماکہ ہوا، جس سے ایک ایکسپریس ٹرین متاثر ہوئی۔2019ءسے 2023ءکے درمیان بلوچستان میں ٹرینوں پر متعدد حملوں کے نتیجے میں ریلوے ٹریکس کو نقصان پہنچایا گیا۔ستمبر 2024ءمیں بلوچستان میں بارشوں اور ریلوے ٹریک کو شدت پسندوں کی جانب سے نشانہ بنانے کے ساتھ بولان کے علاقے دوزان میں برطانوی دورِ حکومت میں تعمیر ہونے والا ریلوے پل بم دھماکے کے باعث گر گیا تھا، جس سے بلوچستان سے پنجاب اور سندھ کے لیے ٹرین سروس کئی مہینوں تک معطل رہی۔9 نومبر 2024ءکو کوئٹہ کے ریلوے سٹیشن پر اس وقت خودکش دھماکہ ہوا جب مسافر جعفر ایکسپریس سے پشاور جانے کی تیاری میں مصروف تھے۔ اس خود کش بم دھماکے میں 26 افراد جان سے گئے جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔
تھنک ٹینک، پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (پی آئی پی ایس) کی جانب سے جاری کردہ ایک سکیورٹی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 2024‘ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2024 میں شدت پسندی کے مجموعی طور پر 521 حملے ہوئے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 70 فیصد اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گہا کہ مختلف کالعدم بلوچ باغی گروہوں،خاص طور پربلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے حملوں میں حیرت انگیز طور پر 119 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جو بلوچستان میں 171واقعات پر مشتمل تھا۔ گذشتہ روز 11 مارچ 2025ء کو امن دشمنوں نے کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر حملہ کردیا جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے کلیئرنس آپریشن شروع کردیا ہے موصولہ اطلاعات کے مطابق 155 سے زائد یرغمال مسافروں کودہشتگردوں سے بازیاب کرا لیا گیا ہے۔جبکہ سیکیورٹی فورسز نے 27 دھشتگرد امن دشمنوں کو جہنم واصل کر دیا ہے اور متعدد مسافر شہید زخمی ہو گئے ہیں جبکہ باقی مسافروں کی با حفاظت بازیابی کیلئے سیکیورٹی فورسز کوشاں ہیں۔ امن دشمنوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے اور آخری امن دشمن کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا۔بولان پاس کے علاقے میں جعفر ایکسپریس پر حملہ کر کے معصوم شہریوں کو ٹارگٹ کیا اورجعفر ایکسپریس کو ٹنل میں روک کر مسافروں کو یرغمال بنایاہواہے۔مسافروں میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی بھی ہے،سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر کلیئرنس آپریشن شروع کر دیا ہے۔سیکیورٹی ذرائع کے مطابق امن دشمن بیرون ملک اپنے سہولت کاروں سے بھی رابطے میں ہیں،ان کا دین اسلام، پاکستان اور بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں ہے سکیورٹی فورسز کا جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والے امن دشمنوں کے خلاف آپریشن جاری، سکیورٹی ذرائع کے مطابق امن دشمنوں میں فدائی حملے کرنے والے میں موجود ہیں جن کو دھشت گردوں نے کچھ معصوم یرغمالی مسافروں کے بالکل ساتھ بیٹھایا ہوا ہے۔ دھشت گردفدائی حملہ آور خودکش بمبارجیکٹس پہنے ہوئے ہیں اور امن دشمن عناصر معصوم لوگوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، سکیورٹی فورسز معصوم یرغمالیوں میں فدائی حملہ آوروں کی موجودگی کے باعث انتہائی اختیاط سے کام لے رہی ہیں۔دوسری جانب بی ایل اے کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ یرغمالیوں میں تمام افراد سرکاری ملازمین ہیں جن کا تعلق سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہے۔ ملک دشمن سوشل میڈیا اکاؤنٹس گمراہ کن اور فیک پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے اور یہ بھی انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے بعض ناعاقبت اندیش سیاسی عناصر جھوٹے پروپگنڈا کو ہوا دے رہے ہیں جس سے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک دشمن سوشل میڈیا اکاؤنٹس گمراہ کن، جھوٹا اور فیک پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں،‎ اے آئی ویڈیوز، پرانی تصاویر، فیک واٹس ایپ پیغامات اور پوسٹرز کے ذریعے ہیجان پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔بھارتی میڈیا پاکستان سے باہر بیٹھے خود ساختہ بھگوڑے بلوچ رہنماؤں کے تجزیے دکھا کر لوگوں کو گمراہ کرنے میں مصروف ہے
جعفر ایکسپریس حملے کے فوراً بعد بھارتی ٹرولز اور ماہ رنگ لانگو کا یکساں بیانیہ ثبوت ہے کہ سب ایک ہی ایجنڈے پر ہیں۔ تیار شدہ پوسٹرز، اے آئی ویڈیوز اور یکساں ٹویٹس ظاہر کرتے ہیں کہ یہ لوگ پاکستان دشمنوں کے سہولت کار بن چکے ہیں . لہٰذا ‎عوام سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے گمراہ کن اور من گھڑت پروپیگنڈا کی بجائے مستند ذرائع سے معلومات لیں۔
صدر مملکت آصف زرداری اور وزیراعظم میاں شہباز شریف نے جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز کی مؤثر کارروائی پر فورسز کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔صدر اور وزیراعظم نے کہا ہے کہ سکیورٹی فورسز بہادری و پیشہ ورانہ مہارت سے دہشتگردوں کا سدباب کررہی ہیں، دشوار راستوں کے باوجود آپریشن میں شامل سکیورٹی فورسز کے افسران و اہلکاروں کے حوصلے بلند ہیں، سکیورٹی فورسز بروقت کارروائی اور بہادری سے بزدل دہشت گردوں کو پسپا کر رہی ہیں۔
"جب دشمن حملہ کرے، تو قومیں متحد ہوتی ہیں، منتشر نہیں! ہماری فوج ہماری شان ہے، مشکل وقت میں ان کا حوصلہ بڑھائیں، حوصلہ نہ توڑیں!
تنقید نہیں، یکجہتی کی ضرورت ہے—قوم اور فورسز ایک ساتھ کھڑے ہیں!جو سرحدوں پر جان دے رہے ہیں ملک کے اندرون اور بیرون دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار ہیں ، ان کے لیے دعائیں کریں، نہ کہ شکایتیں! یہ وقت اختلافات کا نہیں، بلکہ اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے!”

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button