
پاکستان کا اصل مسئلہ ہے کیا؟……حیدر جاوید سید
حجام کی دکان پر یا چائے کے اسٹالوں پر۔ آپ خود جاکر دیکھ لیجئے کچھ دیر بعد آپ کو لگے گا کہ اگر یہ لوگ اسمبلیوں میں ہوتے تو اس ملک کا نقشہ ’’بدل‘‘ چکا ہوتا
کسی بھی افسوسناک واقعہ یا المناک سانحہ کے بعد ہمارے یہاں کھمبیوں کی طرح اُگ آنے والے ’’دانشورانِ ملت و عصر‘‘ ایسی ایسی دانشوری بھورتے ہیں کہ اگر کبھی سی آئی اے یا ایف بی آئی و کے جی بی وغیرہ کو اس کا ادراک ہوجائے تو انہیں جہازوں میں بھر کر اپنے ہاں لے جائیں اور ان کی ’’دانش‘‘ سے استفادہ کرکے دنیا پر راج کریں۔
ویسے کچھ نہ کچھ کیا کچھ زیادہ ہی راج دنیا پر ان ایجنسیوں کے ممالک ملٹی نیشنل کمپنیوں وغیرہ کا ہے۔ بہرحال جعفر ایکسپریس والے واقعہ کے بعد سے ہمارے ہاں جو بحث جاری ہے اس میں ایسی ایسی باکمال تجاویز اور مشوروں کے ساتھ ’’عمل باعمل‘‘ کی منی پیک گارنٹی بھی شامل ہے کہ اگر ان پر عمل ہوجائے تو دنیا گھٹنے ٹیک دے۔
خیر اس طرح کی بحث ہوتی رہتی ہے۔ حجام کی دکان پر یا چائے کے اسٹالوں پر۔ آپ خود جاکر دیکھ لیجئے کچھ دیر بعد آپ کو لگے گا کہ اگر یہ لوگ اسمبلیوں میں ہوتے تو اس ملک کا نقشہ ’’بدل‘‘ چکا ہوتا۔ بلوچستان کے مسئلہ کے حل اور اصلاح احوال کے لئے دوڑتے بھاگتے مشوروں تجاویز اور شرطیہ حل جس طرح ’’دوڑائے‘‘ جارہے ہیں ان پر توجہ نہ دینا ’’ظلمِ عظیم‘‘ ہی ہوگا۔ دانشور تو سارے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں لیکن ہمارے برادر عزیز محمد عامر حسینی نے بلوچستان کے مسائل پر مارکس وادی تناظر میں تجزیے کئے ان کے ایک تجزیہ پر ایک بلوچ دانشورنے کہا ’’بلوچوں کے مسئلہ پر وہ شخص بات کرے جس نے کم از کم پانچ برس بلوچ علاقوں میں گزارے ہوں‘‘۔ شرط اچھی ہے البتہ بلوچ آبادیاں و علاقے تو سندھ و سرائیکی وسیب میں بھی ہیں بلکہ ان سے آگے بھی۔
ہماری رائے میں صرف بلوچ مسئلہ کو سمجھنے اور دو انتہائوں والے حل تجویز کرنے سے حالات بہتر نہیں ہوں گے بلکہ اصولی طور پر ہم سب کو بٹوارے کی بدولت معرض وجود میں آئے پاکستان کے حقیقی مسائل کو سمجھنا ہوگا۔
مثلاً آل انڈیا مسلم لیگ، ڈھاکہ بنگال میں بنی تھی۔ قیام پاکستان کے لئے سب سے پہلی پارلیمانی قرارداد متحدہ ہندوستان کے صوبہ سندھ کی اسمبلی سے منظور ہوئی اس قرارداد کی منظوری کے لئے سرگرم عمل شخصیات میں سے ایک جناب سید غلام مرتضیٰ شاہ کاظمی (مرشد جی ایم سید) مرحوم آخری سانس تک یہ قراراد منظور کروانے اور مسجد منزل گاہ والی تحریک کا حصہ بننے پر ملال کا اظہار کرتے رہے۔
ماضی کا صوبہ سرحد اور آج کا خیبر پختونخوا ایک ریفرنڈم کے نتیجے میں پاکستان کا حصہ بنا اس ریفرنڈم پر مسلم لیگ کے حامیوں اور سرخپوشوں کے درمیان ہمیشہ ’’اِٹ کھڑکا‘‘ رہتا ہے۔ پنجاب پاکستان کا حامی اس وقت ہوا جب لاہور میں ایک جلوس کے دوران نعرہ لگا ’’نویں خبر آئی اے سکندر ساڈا بھائی اے‘‘۔ قلات پر لشکر کشی ہوئی۔ یہ کیوں ہوئی اسے سمجھنے کے لئے مطالعہ پاکستان کی دلدل سے باہر نکلنا ضروری ہے۔
ہمارے ہاں تو اکثریتی آبادی والے صوبے مشرقی پاکستان کے پاکستان سے الگ ہوجانے پر آج تک آزادانہ مکالمہ ہوا نہ تحقیق۔ اس پر ستم یہ ہے کہ بنگالیوں کو مشرف بہ اسلام بذریعہ البدر والشمس کرنے والے سارا ملبہ بھارت، ہندوئوں، مجیب الرحمن اور بھٹو پر ڈال کر خود محافظ اسلام نظریہ پاکستان اور پاکستان بن بیٹھتے ہیں۔
جس تلخ حقیقت کو ہمارے ہاں روز اول سے نظرانداز کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ بٹوارے کی صورت میں بننے والے پاکستان میں 6 قومیں ہزاریوں سے آباد تھیں۔ بنگالیوں پشتونوں، پنجابیوں، سندھیوں، سرائیکیوں اور بلوچوں کی اپنی تاریخ و تمدن، تہذیب اور روایات تھیں اس طور اگر ابتداً ہی فیڈریشن کی بجائے کنفیڈریشن کی راہ اپنائی جاتی تو مصنوعیت کا بول بالا ہوتا نہ ہی 14 اگست 1947ء تک ان اقوام میں صوبوں سے ولن سمجھے جانے والے صرف ایک رات بعد 15 اگست 1947ء کو ہیرو بنائے جاسکتے تھے۔
اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ بٹوارے کی صورت میں معرض وجود میں آنے والا پاکستان اول دن سے ہی تاریخی تہذیبی اور سیاسی طور پر عدم توازن کا شکار ہوگیا آگے چل کر اس عدم توازن میں توازن کا ’’رنگ بھرنے‘‘ کے لئے ون یونٹ کا فارمولہ اپنایا گیا اس ون یونٹ فارمولہ نے درحقیقت پنجابی پشتون مہاجر ٹرائیکا کی بالادستی کو مزید دوام عطا کیا۔
اگر ابتداً ہی اس ملک کو کنفیڈریشن کا درجہ دے کر تمام قومی اکائیوں کے لئے برابری کا اصول اپنالیا جاتا تو وہ بگاڑ پیدا نہ ہوتے جو بعدازاں پیدا ہوئے۔ فوج، عدلیہ، بیوروکریسی وغیرہ میں توازن بہت ضروری تھا۔
آپ سادہ سے سوال پر غور کرلیجئے 1947ء سے دسمبر 1971ء کے درمیان فوج اور سپریم کورٹ کے کتنے سربراہ بنگالی بنے؟ حالانکہ مشرقی پاکستان اکثریتی آبادی والا صوبہ تھا۔
ہزاریوں کا سفر طے کرچکی مقامی زبانوں اور تاریخ کو کچل کر اجنبی تاریخ اور فورٹ ولیم کالج سے مسلمانوں کی زبان قرار پائی اردو کو صرف اس لئے مسلط کیا گیا کہ یہ یو پی سی پی وغیرہ سے آنے والے مہاجرین کی زبان تھی۔
مناسب فیصلہ یہ ہوتا کہ اردو رابطے کی زبان قرار دی جاتی اور مقامی زبانوں کو ان کی تاریخی حیثیت کی بدولت قومی زبانوں کے طور پر تسلیم کرلیا جاتا۔ ہوا اس کے برعکس، مقامی زبانوں اور مقامیت پر مذہب سے کشید کئے گئے دو قومی نظریہ کی تلوار چلادی گئی۔ رہی سہی کسر 1948ء کی قرارداد مقاصد نے پوری کردی یہ قرارداد اصل میں لیاقت علی خان کو ان کے ایک خانگی مسئلہ پر بلیک میل کرنے کا نتیجہ تھی۔
اس قرارداد مقاصد نے نہ صرف پاکستان کا مذہب طے کردیا بلکہ فرقہ بھی۔ نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ کسی نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ اگر لوگوں کو مقامی تاریخ سے کاٹ کر مصنوعی رشتوں اور بیرونی تاریخ سے جوڑا جائے گا تو نتیجہ کیا نکلے گا؟
ہم آج (یہاں ہم سے مراد پانچوں اقوام کے لوگ ہیں جن کی مجموعی آبادی 25 کروڑ ہے) جن مسائل و مشکلات اور استحصال سے دوچار ہیں اس سے نجات کا سامان کسی کے پاس نہیں۔ جس سوشل ڈیموکریٹ ریاست کے خواب فروخت کئے گئے تھے وہ خواب تعبیروں سے پہلے چوری ہوگئے۔
یہ فیصلہ ہی نہیں ہوسکا کہ جناح صاحب کی کون سی بات ماننی ہے۔ پبلک والی یا گیارہ اگست 1947ء والی؟
قرارداد مقاصد اور دوبار مذہب کے اونٹ کو دستور کے خیمے میں بٹھانے کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔جمہوری ریاست کی بجائے سکیورٹی سٹیٹ ہمارے گلے کا ’’ہار‘‘ ہے۔
ساڑھے سات دہائیوں سے کچھ اوپر کے سفر میں سکیورٹی اسٹیٹ نے جو تجربے کئے ان تجربوں سے عام آدمی کا تو جو حشر ہوا سو ہوا لیکن ان تجربوں کے نتائج سکیورٹی اسٹیٹ کو بھی بھگتنا پڑے مگر کیا مجال کہ یہ سوچنے کی زحمت کی گئی ہو کہ ’’ہماری ہرتخلیق ہمارے گریبان سے کیوں الجھی‘‘ ؟ ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ سب جانتے ہوئے بھی کوئی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ عدم توازن اور بداعتمادی کا کینسر پھیل چکا ہے۔ مقامی وسائل پر مقامیوں کا حق تسلیم نہ کرنے کے نتائج صاف سامنے دیوار پر لکھے ہیں۔ ایک دوسرے کو گالی دینے والوں میں سے کوئی بھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کو آمادہ نہیں۔ جعفر ایکسپریس والے واقعہ کے بعد آنے والے دانش کے ” ہڑ ” میں جذبات کی بارش تو ہے سنجیدگی بالکل بھی نہیں۔
لگ بھگ ساڑھے تین دہائیوں سے تواتر کے ساتھ عرض کرتا آرہا ہوں کہ بداعتمادی اور عدم توازن سے نجات کا واحد راستہ نیا عمرانی معاہدہ ہے قوموں کے مساوی حقوق اور نمائندگی کا حق تسلیم کئے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہے۔
کسی تاخیر کے بغیر مذہب اور عقائد کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دینا ہوگا دوسرے کے مذہبی عقائد میں مداخلت اور جبراً آڑے آنے کو قانونی جرم قرار دیئے بغیر بات نہیں بننے والی۔
فیڈریشن میں آباد اقوام کے اہل دانش و سیاست میں مکالمہ ازبس ضروری ہے۔
تاریخ اور حقیقتوں کو قتل کرنے کی روش ترک کرنا ہوگی ان سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسان سازی بہت ضروری ہے ا ور یہ خوداحتسابی کے بغیر ممکن نہیں۔