پاکستاناہم خبریں

ایران پر امریکی حملہ: "ننگی جارحیت” یا عالمی توازن کا نیا موڑ؟ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی خطرناک موڑ پر

باوجود اس کے کہ امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل میں اس حملے پر شدید اختلاف پایا جاتا تھا، صدر ٹرمپ نے یکطرفہ فیصلہ کرتے ہوئے کارروائی کی منظوری دی۔

(سید عاطف ندیم-پاکستان):

مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورت حال نے ایک نیا خطرناک موڑ لے لیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے ایران کی تین معروف جوہری تنصیبات پر فضائی حملے اور اس کے بعد ایران کی جانب سے اسرائیل پر ایک اور میزائل حملے اور آبنائے ہرمز کی بندش کے اعلان نے خطے کو کھلے تصادم کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

اس تمام تر کشیدگی کے بیچ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ واقعی اسرائیل کی جنگ میں شامل ہو چکا ہے؟ اور اگر ہاں، تو کیا یہ اقدام عالمی سطح پر طاقتوں کے توازن کو درہم برہم کر دے گا؟


وائٹ ہاؤس کا بیانیہ: ’فریب یا حکمتِ عملی؟‘

گزشتہ شام تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کا حصہ نہیں بنے گا۔ لیکن چند ہی گھنٹوں بعد امریکی لڑاکا طیاروں نے ایران کے تین جوہری مراکز — فردو، نطنز اور اصفہان — پر فضائی حملے کر دیے۔

باوجود اس کے کہ امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل میں اس حملے پر شدید اختلاف پایا جاتا تھا، صدر ٹرمپ نے یکطرفہ فیصلہ کرتے ہوئے کارروائی کی منظوری دی۔

صدر ٹرمپ نے حملوں کے بعد کہا:

"ایران کی جوہری صلاحیت کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اب وہ عالمی خطرہ نہیں رہا۔”

لیکن تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا بیان سیاسی دعوے سے زیادہ کچھ نہیں۔ حقیقت میں یہ حملے ایران کو روکنے کے بجائے مزید اشتعال دلا سکتے ہیں۔


ایران کا ردعمل: "ایٹمی مواد پہلے ہی منتقل کر دیا گیا تھا”

ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی حملوں میں نشانہ بنائی گئی جوہری تنصیبات سے حساس مواد پہلے ہی منتقل کر لیا گیا تھا اور ان حملوں کا عملی نقصان محدود رہا۔

تاہم ایران نے اس حملے کو "براہِ راست جنگی اقدام” قرار دیتے ہوئے کہا:

"ہماری خودمختاری پر حملہ کیا گیا ہے، اور ہم اس کا جواب ہر محاذ پر دیں گے۔”

چند ہی گھنٹوں بعد ایران نے نہ صرف اسرائیل پر میزائل حملے کیے بلکہ آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا اعلان بھی کر دیا، جو دنیا کے تیل کی ترسیل کا ایک اہم بحری راستہ ہے۔


اسرائیل کی حمایت میں امریکی مداخلت: عالمی قانون کی خلاف ورزی؟

بین الاقوامی قوانین کے مطابق، کسی خودمختار ملک پر فوجی حملہ صرف اقوام متحدہ کی منظوری یا خود دفاع کے حق میں کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ حملے نہ صرف ان اصولوں کی خلاف ورزی کے زمرے میں آ سکتے ہیں بلکہ یہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کے دفاع میں براہِ راست مداخلت کے طور پر بھی دیکھے جا رہے ہیں۔

ایران نے اس اقدام کو "ننگی جارحیت” قرار دیا ہے، جب کہ دیگر ممالک میں بھی امریکہ کی یکطرفہ کارروائی پر تحفظات پائے جاتے ہیں۔


روس، چین، پاکستان اور ترکی کا مجوزہ بلاک: خواب ٹوٹا یا موقع ضائع؟

گزشتہ چند برسوں سے ایک نیا سفارتی و عسکری بلاک — روس، چین، پاکستان اور ترکی پر مشتمل — عالمی منظرنامے پر ابھرتے اتحاد کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔ لیکن ایران پر امریکی حملے کے بعد اب یہ سوال اہم ہو گیا ہے کہ:

"کیا یہ بلاک کسی مؤثر جواب کے لیے تیار ہے؟ یا یہ خواب تعبیر سے پہلے ہی چوری ہو چکا ہے؟”

ابھی تک ان ممالک کی جانب سے مشترکہ بیان یا مربوط لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔ ترکی نے محتاط انداز میں ثالثی کی پیشکش کی ہے، چین نے "تحمل” کی تلقین کی ہے، پاکستان نے "خطے کے امن” پر زور دیا ہے، اور روس کی طرف سے شدید بیان جاری ہوا ہے، مگر ٹھوس عملی اقدام کا فقدان واضح ہے۔


آبنائے ہرمز کی بندش: عالمی معیشت کو خطرہ

ایران کا آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا اعلان عالمی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ دنیا کے ایک تہائی تیل کا انحصار اس آبی گزرگاہ پر ہے۔ بندش کی صورت میں:

  • تیل کی قیمتوں میں شدید اضافہ

  • عالمی سپلائی چین متاثر

  • عالمی منڈیوں میں شدید بے یقینی

تجزیہ کاروں کے مطابق اگر اس بندش کو عملی جامہ پہنایا گیا تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو فوجی ردعمل پر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے — جو ایک بڑی جنگ کی طرف قدم ہو گا۔


خلاصہ: دنیا ایک اور بڑی جنگ کے دہانے پر؟

اہم واقعہ تفصیل
امریکی حملہ ایران کی 3 جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا، ٹرمپ کا "کامیابی” کا دعویٰ
ایران کا جواب اسرائیل پر حملہ، آبنائے ہرمز کی بندش کا اعلان
عالمی ردعمل چین، روس، ترکی اور پاکستان کا خاموش ردعمل، سفارتی لائحہ عمل غیرواضح
قانونی پہلو اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر حملہ — بین الاقوامی قوانین کی ممکنہ خلاف ورزی
خطرات مشرق وسطیٰ میں بڑی جنگ، عالمی منڈیوں میں افراتفری، توانائی کا بحران

پاکستان کا ممکنہ کردار: ثالث یا غیر جانب دار ؟

پاکستان اب ایک بار پھر مشکل فیصلے کے دہانے پر ہے۔ ایک طرف برادر اسلامی ملک ایران، دوسری طرف دیرینہ سفارتی تعلقات کے حامل امریکہ، سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں۔ اگر پاکستان سفارتکاری کو مؤثر انداز میں بروئے کار لا سکے تو وہ نہ صرف خطے میں ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے بلکہ اپنی عالمی ساکھ کو بھی مستحکم بنا سکتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button