پاکستاناہم خبریں

پاکستان بحریہ ٹاؤن: ختم شدہ کے قریب تر؟

بحریہ ٹاؤن کراچی میں قبضے کے مسائل، غیر منظور شدہ زمینوں پر تعمیرات، اور مقامی آبادیوں کے احتجاجات نے اس کے ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا۔

سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی کے ساتھ

بحریہ ٹاؤن، پاکستان کی رئیل اسٹیٹ کی دنیا میں ایک بڑا اور نمایاں نام رہا ہے۔ یہ پروجیکٹ اپنے وقت میں جدید ترین سہولیات، پرامن ماحول، اور بہترین رہائشی انفراسٹرکچر کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن گزشتہ چند سالوں میں بحریہ ٹاؤن کو مختلف قانونی، مالی، اور انتظامی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس نے اس کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔

بحریہ ٹاؤن کی جانب سے آپریشن معطل کرنے کا عندیہ

بحریہ ٹاؤن یا ملک ریاض کی جانب سے ان الزامات پر کوئی باقاعدہ ردعمل جاری نہیں کیا گیا، تاہم 5 اگست کو ملک ریاض نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک بیان میں کہا کہ:

’’حکومتی اداروں کی جانب سے پے در پے دباؤ، اسٹاف کی گرفتاریاں، بینک اکاؤنٹس کی منجمدی، اور دیگر سخت اقدامات کے باعث بحریہ ٹاؤن کے آپریشنز ملک بھر میں مفلوج ہو چکے ہیں۔‘‘

ملک ریاض نے دعویٰ کیا کہ وہ "بحریہ ٹاؤن کی سرگرمیاں مکمل بند کرنے سے محض ایک قدم دور ہیں” اور موجودہ حالات میں کمپنی کے بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے۔


نیب کی کارروائیاں اور جائیدادوں کی نیلامی

بحریہ ٹاؤن کے خلاف جاری کارروائیوں میں قومی احتساب بیورو (نیب) بھی متحرک ہے۔ نیب نے احتساب عدالت کے احکامات کی روشنی میں بحریہ ٹاؤن کی متعدد جائیدادوں کو نیلامی کے لیے پیش کیا، جس کی تاریخ 7 اگست مقرر کی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نیلامی رکوانے کی بحریہ ٹاؤن کی درخواست مسترد کی گئی، جس کے بعد سوسائٹی نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔

نیلامی کے لیے پیش کی گئی جائیدادوں میں:

  • بحریہ ٹاؤن کے دو کارپوریٹ دفاتر

  • ایک تعلیمی ادارے کی عمارت

  • سفاری کلب

  • ایک شادی ہال

  • سنیما گھر

شامل ہیں، جن کی ابتدائی قیمت اربوں روپے مقرر کی گئی ہے۔


منظم مالیاتی نیٹ ورک کا انکشاف

وفاقی وزیر کے مطابق، بحریہ ٹاؤن کے مالیاتی نیٹ ورک میں شامل افراد نے غیر قانونی ذرائع سے رقوم بیرون ملک منتقل کیں۔ اس نیٹ ورک کی نگرانی allegedly ریٹائرڈ کرنل خلیل کر رہے تھے، جنہیں حراست میں لے لیا گیا ہے۔

وزیر اطلاعات نے اس بات کی وضاحت کی کہ:

’’بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں کے حقوق محفوظ رہیں گے، کارروائی صرف اُن افراد کے خلاف ہے جو منی لانڈرنگ یا دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے۔‘‘


پس منظر: ملک ریاض کے خلاف مقدمات

یاد رہے کہ ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ریاض کو احتساب عدالت نے تین مختلف مقدمات میں ’اشہتاری‘ قرار دیا ہے، جن میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کے مقدمے سے جڑا کیس بھی شامل ہے۔

ملک ریاض نے ماضی میں نیب پر "بلیک میلنگ” کے الزامات لگاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’’کسی کے خلاف وعدہ معاف گواہ‘‘ نہیں بنیں گے اور ملک کے قوانین کا احترام کرتے ہیں۔


بحران کی شدت اور عوامی اثرات

ملک ریاض نے اپنے حالیہ بیان میں بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں، سرمایہ کاروں، اور اسٹاف کے ہزاروں افراد کو درپیش مالی و ذہنی مشکلات کا ذکر کیا، اور حکومت سے مذاکرات کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ ثالثی کے کسی بھی عمل میں شرکت پر آمادہ ہیں اور فیصلے پر عمل درآمد کی مکمل یقین دہانی کرواتے ہیں۔

بحریہ ٹاؤن کی ترقی کا سفر

بحریہ ٹاؤن کا آغاز ایک وژن کے تحت ہوا تھا جس کا مقصد پاکستان میں بین الاقوامی معیار کی رہائش گاہیں فراہم کرنا تھا۔ لاہور، کراچی، اور راولپنڈی میں اس کے بڑے پروجیکٹس نے ہزاروں خاندانوں کو جدید طرزِ زندگی کی سہولیات فراہم کیں۔ ان علاقوں میں سیکیورٹی، صاف ستھرا ماحول، اور متبادل بجلی و پانی کا نظام وہ چیزیں تھیں جو سرکاری رہائشی اسکیموں میں مفقود تھیں۔

زوال کی نشانیاں

تاہم وقت کے ساتھ ساتھ مسائل نے سر اٹھانا شروع کیا۔ سب سے پہلے، زمین کے حصول میں بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے 2019 میں بحریہ ٹاؤن کراچی کو 460 ارب روپے جرمانہ عائد کیا گیا، جس نے پروجیکٹ کے مالی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کیا۔ اس کے علاوہ، متعدد صارفین نے شکایات کیں کہ انہیں وقت پر پلاٹس یا گھر نہیں دیے گئے، یا ترقیاتی کام مکمل نہیں کیے گئے۔

بحریہ ٹاؤن کراچی میں قبضے کے مسائل، غیر منظور شدہ زمینوں پر تعمیرات، اور مقامی آبادیوں کے احتجاجات نے اس کے ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا۔

کیا واقعی بحریہ ٹاؤن ختم ہونے کے قریب ہے؟

اس سوال کا جواب آسان نہیں۔ ایک طرف بحریہ ٹاؤن کی مالی مشکلات اور قانونی رکاوٹیں اس کے مستقبل کو غیر یقینی بناتی ہیں، تو دوسری طرف اب بھی ہزاروں لوگ اس میں رہائش پذیر ہیں اور نئی تعمیرات جاری ہیں۔ انتظامیہ کی طرف سے دیے گئے وعدے، منصوبہ بندی، اور موجودہ انفراسٹرکچر اب بھی اسے باقی مارکیٹ سے ممتاز کرتے ہیں۔

مگر حقیقت یہی ہے کہ اگر بحریہ ٹاؤن انتظامیہ نے شفافیت، قانونی عملداری، اور صارفین کے اعتماد کی بحالی پر فوری توجہ نہ دی تو "ختم شدہ کے قریب” ہونا ایک امکان بن سکتا ہے، حقیقت نہیں ۔

بحریہ ٹاؤن کا مستقبل اب اس کے اپنے اقدامات پر منحصر ہے۔ یہ منصوبہ جو کبھی پاکستان کے جدید شہروں کا خواب تھا، اب ایک چیلنج بن چکا ہے۔ اگر انتظامیہ سنجیدگی سے اصلاحات کرے، قانونی تقاضے پورے کرے، اور عوامی اعتماد بحال کرے تو یہ زوال عارضی ثابت ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر، بحریہ ٹاؤن کا نام ماضی کی داستانوں میں شامل ہو سکتا ہے — ایک ایسا خواب جو حقیقت نہ بن سکا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button