
پشاور/کوئٹہ، خصوصی نمائندہ
پاکستان ریلوے نے اعلان کیا ہے کہ پشاور سے کوئٹہ جانے والی جعفر ایکسپریس 10 اور 13 اگست کو پشاور سے، جبکہ 11 اور 14 اگست کو کوئٹہ سے پشاور تک منسوخ رہے گی۔ اس فیصلے کی وجہ بلوچستان کے علاقے سپیزنڈ کے قریب ریلوے ٹریک پر ہونے والا حالیہ دھماکہ ہے، جس سے جعفر ایکسپریس کی چھ بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں۔ خوش قسمتی سے کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
یہ واقعہ اس ٹرین پر ہونے والے مسلسل حملوں کی ایک اور کڑی ہے، جس نے نہ صرف بلوچستان میں سفر کرنے والے ہزاروں مسافروں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے بلکہ جعفر ایکسپریس کو بھی پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ نشانہ بننے والی مسافر ٹرین بنا دیا ہے۔
حالیہ واقعات: دہشت گردی، تباہی اور خوف کی فضا
اتوار 10 اگست کی صبح نو بجے پشاور سے روانہ ہونے والی جعفر ایکسپریس جب سپیزنڈ کے قریب پہنچی تو ریلوے ٹریک پر دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں چھ بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں۔ آئی ایس پی آر اور ریلوے حکام کے مطابق کوئی مسافر زخمی یا جاں بحق نہیں ہوا تاہم ٹرین سروس کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا، اور ریسکیو ٹیمیں جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب چند روز قبل بلوچستان کے سبی میں بھی ریلوے ٹریک پر دھماکہ ہوا تھا، جس سے جعفر ایکسپریس کا گزرنے کے بعد ٹریک کو نقصان پہنچا، تاہم تب بھی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ان حملوں کے تسلسل نے جعفر ایکسپریس کے محفوظ سفری ہونے کے تصور کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
مارچ 2025 کا دل دہلا دینے والا حملہ: 26 افراد قتل
جعفر ایکسپریس پر سب سے مہلک حملہ رواں برس مارچ میں بلوچستان کے ضلع کچھی (بولان) میں کیا گیا جب ایک کالعدم تنظیم نے درہ بولان کے پہاڑی علاقے میں دھماکہ کر کے ٹرین کو پٹڑی سے اتارا، اور پھر مسافروں کو یرغمال بنا کر ان میں سے 26 افراد کو قتل کر دیا۔ اس واقعے نے ملک بھر میں شدید غم و غصے کو جنم دیا اور بلوچستان میں ریلوے سروس کی سکیورٹی کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے کر دیے۔
جعفر ایکسپریس: ایک تاریخی مگر خطرناک ریلوے سفر
جعفر ایکسپریس صرف ایک عام ٹرین نہیں بلکہ یہ پاکستان کے سب سے مشکل اور دلکش ریلوے راستے پر چلنے والی ایک علامتی مسافر سروس ہے۔
یہ ٹرین سبی سے کوئٹہ کے درمیان تقریباً 70 کلومیٹر طویل درہ بولان کے پہاڑی، سنگلاخ، اور خطرناک راستے سے گزرتی ہے۔ اس سفر میں:
17 سرنگیں
350 پل
کئی ندی نالے اور برساتی گزرگاہیں شامل ہیں۔
یہ سب مناظر اگرچہ سیاحتی نقطۂ نظر سے دلفریب ہیں، مگر سکیورٹی اور تکنیکی لحاظ سے نہایت حساس بھی ہیں۔
سطحِ سمندر سے صرف 400 فٹ بلند سبی سے جب ٹرین کولپور تک پہنچتی ہے، تو وہ صرف 100 کلومیٹر میں تقریباً 5,500 فٹ بلندی طے کرتی ہے — جو کسی بھی ٹرین آپریشن کے لیے انجنئیرنگ کا چیلنج ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ٹرین کی رفتار 30-40 کلومیٹر فی گھنٹہ تک محدود رکھی جاتی ہے، اور کئی مقامات پر "جہنم لائن” جیسے حفاظتی بائی پاس ٹریک بھی موجود ہیں، تاکہ ٹرین اگر بے قابو ہو جائے تو حادثہ کم سے کم ہو۔
جعفر ایکسپریس: سب سے زیادہ نشانہ بننے والی ٹرین
بلوچستان میں دو دہائیوں سے جاری شورش کے دوران سب سے زیادہ حملے جعفر ایکسپریس پر ہوئے ہیں۔
محکمہ داخلہ بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق 2005 سے 2015 کے درمیان ریلوے تنصیبات اور ٹرینوں پر 173 حملے ہوئے جن میں سے اکثریت کا ہدف جعفر ایکسپریس رہی۔
2014: سبی اسٹیشن پر جعفر ایکسپریس پر حملہ، 17 افراد ہلاک
2015: درہ بولان میں آب گم کے مقام پر بریک فیل ہونے سے ٹرین الٹ گئی، 20 سے زائد افراد ہلاک
2024: کوئٹہ اسٹیشن پر دھماکہ، 26 افراد ہلاک، 60 زخمی
2025: مارچ میں بولان حملہ، 26 افراد قتل
بعض حملوں میں ٹرین کو ہائی جیک کیا گیا، جو پاکستان کی تاریخ میں ایک نادر اور تشویشناک واقعہ ہے۔
نشانہ کیوں؟
ماہرین کے مطابق جعفر ایکسپریس کو مسلسل نشانہ بنائے جانے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ:
اس میں زیادہ تر پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد سفر کرتے ہیں،
کئی مرتبہ سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی چھٹیوں پر اسی ٹرین سے آتے جاتے ہیں،
کچھ علاقوں میں اسے مرکزی ریاستی اداروں کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
یہ عوامل عسکریت پسند گروہوں کے لیے اسے ایک علامتی ہدف بناتے ہیں۔
عوامی ردعمل اور متبادل ذرائع سفر
گزشتہ کچھ سالوں میں جب قومی شاہراہوں پر اغواء، قتل اور لاقانونیت کا سامنا رہا، جعفر ایکسپریس کو ایک نسبتاً محفوظ اور سستا ذریعہ سفر سمجھا جاتا تھا۔
مگر حالیہ حملوں نے اس تاثر کو بھی زائل کر دیا ہے۔
لوگ اب یا تو سفر ملتوی کر رہے ہیں یا ہوائی سفر اور نجی گاڑیوں کو ترجیح دے رہے ہیں، اگرچہ یہ مہنگے متبادل ہیں۔
کیا جعفر ایکسپریس کی بحالی ممکن ہے؟
ریلوے حکام نے یقین دہانی کرائی ہے کہ:
سکیورٹی میں اضافہ کیا جائے گا
نائٹ آپریشن محدود رہے گا
ٹریک کلیئرنس کے لیے ڈرونز اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا
مگر جب تک بلوچستان میں ریاستی رٹ مکمل طور پر بحال نہیں ہوتی، جعفر ایکسپریس کا سفر ایک خطرناک مہم جوئی ہی رہے گا۔
نتیجہ: ایک انجنئیرنگ شاہکار، ایک قومی سانحہ؟
جعفر ایکسپریس، جو کبھی انجنئیرنگ کا شاہکار اور ریاستی وحدت کی علامت تھی، اب ایک خوف کی علامت بنتی جا رہی ہے۔
اس ٹرین کا راستہ نہ صرف خوبصورت مناظر، بلکہ خوف، غیر یقینی، اور دہشت سے بھی لبریز ہو چکا ہے۔
ریلوے اور سکیورٹی اداروں کے لیے یہ ایک امتحان ہے — کیا وہ عوام کو یہ یقین دہانی کروا سکیں گے کہ جعفر ایکسپریس پھر سے محفوظ اور قابل اعتماد بن سکتی ہے؟
یا یہ ٹرین اپنی تاریخی حیثیت کے باوجود خاموشی سے تاریخ کے صفحات میں دفن ہو جائے گی؟



