
بحرين: بحرین کی پارلیمنٹ نے ایک مجوزہ قانون پر بحث کی ہے جو شادی سے پہلے ہونے والے طبی معائنوں کے تصور کو بالکل نئے مرحلے میں داخل کر سکتا ہے۔ اس تجویز میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ شادی سے پہلے کے معائنے کو صرف موروثی یا متعدی بیماریوں تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس میں ذہنی صحت اور منشیات کے استعمال کو بھی شامل کیا جائے، کیونکہ یہ پوشیدہ عوامل شادی کے بعد خاندان کے استحکام کے لیے خطرہ بنتے ہیں۔
اس تجویز کو پیش کرنے والی اہم شخصیت خاتون رکن پارلیمنٹ باسمہ مبارک نے کہا کہ یہ قانون "ایک ضرورت ہے، انتخاب نہیں”۔ ان کے مطابق یہ اقدام بحرینی قوانین کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے اور اس یقین پر مبنی ہے کہ شادی سے پہلے کا طبی معائنہ زیادہ جامع ہونا چاہیے تاکہ مستقبل میں ایک صحت مند خاندانی ماحول قائم کیا جا سکے۔
قانونی مسودے کے تحت "طبی معائنے” کی تعریف کو وسعت دی گئی ہے تاکہ یہ دونوں فریقین کے لیے ایک جامع ٹیسٹ ہو جس میں موروثی اور متعدی امراض کے ساتھ ساتھ نفسیاتی جانچ اور منشیات کے ٹیسٹ بھی شامل ہوں۔ مزید یہ کہ وزیر صحت کو ضرورت کے مطابق اضافی معائنوں کو شامل کرنے کا اختیار بھی دیا جائے گا۔
مبارک کے مطابق اس توسیع سے یہ تصور "روایتی طبی معائنے” سے بڑھ کر "جامع معائنہ برائے فریقین” بن جائے گا۔ یہ اس بات کی ضمانت دے گا کہ دولہا اور دلہن دونوں بہترین مواقع کے ساتھ ایک پائے دار اور صحت مند زندگی کا آغاز کریں۔
باسمہ مبارک کے مطابق اس کا مقصد صرف موروثی یا متعدی بیماریوں سے بچاؤ نہیں بلکہ ازدواجی جوڑوں کی ذہنی صحت اور سماجی سلامتی کو یقینی بنانا ہے تاکہ خاندانی استحکام بڑھے اور ملکی فلاح و بہبود کو تقویت ملے۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی خاندان غلط بنیاد پر قائم ہونے کے باعث بکھر جاتے ہیں۔ منشیات کے استعمال کا آغاز میں ہی پتہ چل جائے تو یہ طے کرنا ممکن ہو جاتا ہے کہ شادی ہونی چاہیے یا نہیں، لیکن اگر اسے نظر انداز کیا جائے تو اس کے اثرات اولاد تک جا پہنچتے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق بحرین میں 2020 اور 2021 کے دوران 12,395 سے زائد شادیاں ہوئیں، جبکہ ایک ہی سال میں 1,724 طلاق کے کیس ریکارڈ ہوئے۔ ماہرین کے مطابق یہ اعداد و شمار اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ابتدائی علیحدگی سے بچنے کے لیے احتیاطی اقدامات کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر ایسے معاشرے میں جہاں سماجی و معاشی دباؤ بڑھ رہے ہیں۔
سماجی محققین کا کہنا ہے کہ جب شادی شدہ جوڑوں میں سے کوئی ایک شریکِ حیات منشیات یا الکحل کا عادی ہو تو زندگی شدید تناؤ اور کمزور رابطے کا شکار ہو جاتی ہے، جس سے علیحدگی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ یہ صورتِ حال عالمی سطح پر بھی دیکھی گئی ہے۔ امریکی تحقیقی مطالعوں کے مطابق صرف ایک دہائی میں 3 لاکھ 21 ہزار سے زیادہ بچے اپنے والد یا والدہ کو منشیات کی زیادتی کے باعث کھو بیٹھے۔