پاکستان پریس ریلیزاہم خبریں

پاکستان میں 24 برس سے کوئی کلاؤڈ برسٹ ریکارڈ نہیں ہوا، حالیہ فلیش فلڈز انتظامی ناکامیوں کا نتیجہ — ماہرین

"ہم نے حالیہ دو ماہ میں گزشتہ سال کی نسبت محض 12 فیصد زیادہ بارش ریکارڈ کی ہے، جو کسی بھی صورت کلاؤڈ برسٹ کے زمرے میں نہیں آتی۔"

اسلام آباد (خصوصی رپورٹ)
پاکستان کے مختلف علاقوں میں حالیہ شدید بارشوں کے بعد آنے والے فلیش فلڈز کو عام طور پر عوامی حلقوں، سوشل میڈیا اور حتیٰ کہ بعض سرکاری اداروں کی جانب سے ’کلاؤڈ برسٹ‘ (Cloudburst) سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ تاہم محکمہ موسمیات پاکستان اور آزاد ماہرین نے ان دعوؤں کو سراسر غلط، غیر sائنسی اور گمراہ کن قرار دے دیا ہے۔

ماہرین کے مطابق حالیہ تباہ کن فلیش فلڈز دراصل قدرتی آفات سے زیادہ انتظامی بدانتظامی، ناقص شہری منصوبہ بندی، جنگلات کی کٹائی اور نکاسی آب کے ناقابل اعتماد نظام کا نتیجہ ہیں۔


محکمہ موسمیات: 2001 کے بعد کوئی کلاؤڈ برسٹ نہیں ہوا

پاکستان کے محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل صاحبزادہ خان نے بین الاقوامی نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں گزشتہ 24 سال کے دوران کسی قسم کا کلاؤڈ برسٹ ریکارڈ نہیں ہوا۔ ان کے مطابق،

"ہم نے حالیہ دو ماہ میں گزشتہ سال کی نسبت محض 12 فیصد زیادہ بارش ریکارڈ کی ہے، جو کسی بھی صورت کلاؤڈ برسٹ کے زمرے میں نہیں آتی۔”

انہوں نے وضاحت کی کہ فلیش فلڈز کی بڑی وجہ کلاؤڈ برسٹ نہیں بلکہ زمین پر موجود انفراسٹرکچر کی خرابی اور تیاری کی کمی ہے۔


کلاؤڈ برسٹ کی سائنسی تعریف اور ماضی کی مثال

ماہرِ موسمیات ڈاکٹر سید فیصل سعید کے مطابق، کلاؤڈ برسٹ ایک نایاب اور انتہائی شدید موسمیاتی واقعہ ہوتا ہے، جس میں بہت کم وقت میں بہت زیادہ بارش برستی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آخری بار کلاؤڈ برسٹ جولائی 2001 میں راولپنڈی میں ریکارڈ کیا گیا تھا، جب

24 گھنٹوں میں 620 ملی میٹر بارش ہوئی، اور صرف ایک گھنٹے میں 100 ملی میٹر سے زائد بارش کا اندراج ہوا۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا،

"ہم سائنسی شواہد کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہیں۔ موجودہ بارشیں بھاری ضرور ہیں، لیکن انہیں کلاؤڈ برسٹ کہنا غلط ہے۔”

انہوں نے مزید وضاحت کی کہ "بھاری بارش” کی تعریف ہر علاقے کے مطابق مختلف ہو سکتی ہے۔
مثال کے طور پر:

  • کراچی میں 35 ملی میٹر بارش "بھاری” تصور کی جاتی ہے

  • جبکہ مری جیسے علاقوں میں یہی مقدار معمول کی بات ہے


کراچی: 178 ملی میٹر بارش اور نکاسی کا بحران

کراچی کے مختلف علاقوں میں 24 گھنٹوں کے دوران 178 ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی۔ جن علاقوں میں شدید متاثرہ ہوئے ان میں گلشنِ حدید، کیماڑی، ناظم آباد اور سرجانی ٹاؤن شامل ہیں۔

ماہرین کے مطابق اتنی بارش غیر معمولی ضرور ہے، لیکن اگر شہری نکاسی آب کا نظام مؤثر ہوتا تو یہ بارش اتنی تباہ کن نہ ہوتی۔

نصیر میمن، ماحولیاتی تبدیلیوں کے ممتاز تجزیہ کار، کے مطابق:

"پاکستان میں اکثر قدرتی آفات کو الزامات کی نذر کیا جاتا ہے، جب کہ حقیقت میں ان کی وجہ انتظامی ناکامیاں ہوتی ہیں۔”

انہوں نے نشاندہی کی کہ ناقص ڈرینیج، جنگلات کی کٹائی، اور بے ہنگم اربنائزیشن نے قدرتی پانی کے بہاؤ کو روک دیا ہے۔


بونیر، خیبرپختونخوا: انسانی جانوں کا ضیاع، انتظامی دعوے بے نقاب

خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر میں حالیہ فلیش فلڈز نے سینکڑوں خاندانوں کو متاثر کیا، املاک کو شدید نقصان پہنچا اور قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) نے اس واقعے کو فوری طور پر کلاؤڈ برسٹ قرار دیا، لیکن محکمہ موسمیات نے اس دعوے کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بونیر جیسے علاقوں میں درختوں کی کٹائی، ندی نالوں پر تجاوزات، اور نکاسی کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے، جس کی وجہ سے فلیش فلڈز کا خطرہ کئی گنا بڑھ گیا ہے۔


اسلام آباد: قدرتی گزرگاہوں پر عمارتیں، ماڈل ولیج کا فریب

پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد، جو جغرافیائی لحاظ سے بھاری بارش کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس بار بھی شدید متاثر ہوا۔ سیدپور گاؤں میں گاڑیاں پانی کے ساتھ بہہ گئیں، نشیبی علاقے زیرِ آب آ گئے، اور شہری پریشان ہو گئے۔

سابق ڈائریکٹر جنرل سی ڈی اے (سرور سندھو) نے چشم کشا انکشافات کرتے ہوئے کہا کہ:

"سیدپور کے قدرتی نالے کو ماڈل ولیج بنانے کے نام پر چھوٹا کر دیا گیا، جس سے پانی کا بہاؤ رُک گیا اور سیلاب کی کیفیت پیدا ہوئی۔”

انہوں نے مزید کہا کہ:

"سی ڈی اے پانی کے قدرتی بہاؤ کے راستوں میں عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دے رہا ہے، جو مستقبل میں اسلام آباد کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔”


ماہرین کا انتباہ: ہر سال یہی غلطی نہ دہرائیں

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور شہری ادارے اب بھی نہ جاگے تو آئندہ برسوں میں یہ آفات مزید شدید ہوں گی۔ ان کے مطابق:

  • سیلاب کی روک تھام کے لیے قدرتی گزرگاہوں کو بحال کیا جائے

  • نکاسی آب کے جدید اور مؤثر نظام قائم کیے جائیں

  • شہری منصوبہ بندی کو سائنس اور ماحولیات سے ہم آہنگ کیا جائے

  • شجرکاری کو قومی سطح پر ترجیح دی جائے

  • تجاوزات کا خاتمہ اور تعمیرات پر سخت ضوابط نافذ کیے جائیں


نتیجہ: کلاؤڈ برسٹ نہیں، غفلت کی مار

پاکستان میں حالیہ فلیش فلڈز کو کلاؤڈ برسٹ قرار دینا ذمہ داری سے فرار کے مترادف ہے۔ جب تک قدرتی عوامل کو بہانہ بنانے کے بجائے انتظامی غفلت کو تسلیم اور درست نہیں کیا جائے گا، تباہی کا سلسلہ جاری رہے گا۔

ماہرین کا مؤقف واضح ہے:

"یہ کلاؤڈ برسٹ نہیں، انتظامی برسٹ ہے۔”

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button