
لبنان میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا نیا منصوبہ: امریکی دباؤ اور ملک کے اندر سیاسی کشیدگی بڑھنے کا خدشہ
حزب اللہ کے تمام مسلح ونگز کو ختم کرنا اور ہتھیاروں کو ریاست کے کنٹرول میں لانا ہے۔ وزیر اطلاعات پال مورکوس نے بتایا کہ فوج معاہدے کی شرائط پر عملدرآمد شروع کر دے گی لیکن اس کی صلاحیتیں محدود ہو سکتی ہیں
لبنان نے ایک اہم اور نازک مرحلے میں قدم رکھا ہے جہاں اس کی حکومت نے ملک کی سب سے طاقتور اور سیاسی و عسکری طور پر انتہائی بااثر ملیشیا، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے فوج کے ایک منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام ایک بے مثال قدم ہے جو نہ صرف لبنان کی داخلی سیاست میں ہلچل مچا سکتا ہے بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
فوج کا منصوبہ اور حکومت کی حمایت
لبنان کی کابینہ نے جمعے کے روز فوج کی جانب سے پیش کیے گئے اس منصوبے کو باقاعدہ منظوری دے دی ہے جس کا مقصد حزب اللہ کے تمام مسلح ونگز کو ختم کرنا اور ہتھیاروں کو ریاست کے کنٹرول میں لانا ہے۔ وزیر اطلاعات پال مورکوس نے بتایا کہ فوج معاہدے کی شرائط پر عملدرآمد شروع کر دے گی لیکن اس کی صلاحیتیں محدود ہو سکتی ہیں۔ وزیر اعظم نواف سلام نے بھی کہا ہے کہ فوج کی قیادت کابینہ کو ماہانہ بنیادوں پر اس منصوبے کی پیشرفت کی رپورٹ پیش کرے گی، اگرچہ حکومت نے اس حوالے سے کوئی واضح ٹائم لائن فراہم نہیں کی۔
یہ اقدام امریکی اور دیگر علاقائی طاقتوں کے شدید دباؤ میں آیا ہے جو لبنان میں امن و استحکام کے لیے حزب اللہ کے مسلح ونگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کا ردعمل
کابینہ کے اجلاس کے دوران حزب اللہ اور اس کی اتحادی سیاسی جماعت امل کے پانچ وزراء نے احتجاجاً اجلاس سے واک آؤٹ کر دیا، جو اس منصوبے کی مخالفت کا واضح اشارہ ہے۔ حزب اللہ نے اس منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار نہیں چھوڑے گا اور اس کو لبنانی عوام کی حفاظت کے لیے ناگزیر سمجھتا ہے۔
حزب اللہ نہ صرف ایک عسکریت پسند گروہ ہے بلکہ لبنان کی سیاست میں بھی ایک اہم قوت ہے، جس کے قانون ساز اور سماجی خدمات کے شعبے ملک کے جنوب میں مضبوط حلقوں کو سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ اس کا اثر و رسوخ لبنان کی شیعہ کمیونٹی میں بہت زیادہ ہے اور اسے بہت سے حلقوں کی جانب سے بطور دفاعی قوت دیکھا جاتا ہے، خاص طور پر اسرائیلی حملوں کے خلاف مزاحمت کے تناظر میں۔
تاریخی پس منظر اور طاقت کا توازن
لبنان کی خانہ جنگی کے اختتام کے بعد، حزب اللہ نے اپنے مسلح ونگ کو برقرار رکھا، جسے طائف معاہدے کے تحت تخفیف اسلحہ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا کیونکہ اس کا اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کردار تسلیم کیا گیا تھا۔
7 اکتوبر 2023 کو فلسطینی عسکریت پسندوں کے اسرائیل پر حملے کے بعد حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان ایک سال طویل تنازعہ ہوا جس نے لبنان کو بری طرح متاثر کیا۔ اسرائیلی حملوں نے حزب اللہ کو شدید نقصان پہنچایا، جس میں اس کے کئی رہنما بھی ہلاک ہوئے، جن میں حسن نصیحت جیسے اہم کمانڈر بھی شامل ہیں۔
امریکی اور علاقائی دباؤ
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکی حکام اس ملیشیا کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں اور اسے خطے میں عدم استحکام کا سب سے بڑا سبب مانتے ہیں۔ امریکی اور بین الاقوامی دباؤ کے باعث لبنان کی حکومت نے فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ اگست 2024 تک ایک واضح منصوبہ پیش کرے تاکہ حزب اللہ اور دیگر ملیشیاؤں سے متعلق ہتھیاروں کی منتقلی کا عمل شروع کیا جا سکے۔
لبنان میں داخلی تقسیم اور سیاسی خطرات
یہ منصوبہ لبنان میں شدید اندرونی سیاسی کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔ حزب اللہ کے حمایتی اسے ملک کی خودمختاری اور شیعہ کمیونٹی کے دفاع کے خلاف سازش کے طور پر دیکھتے ہیں۔ دوسری جانب حزب اللہ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ گروہ لبنان کو اسرائیل کے ساتھ جنگ میں گھسیٹ رہا ہے اور اپنے عسکری و سیاسی اثر و رسوخ سے ملک کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر حزب اللہ کو طاقت کے ذریعے غیر مسلح کرنے کی کوشش کی گئی تو لبنان خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے، کیونکہ یہ گروپ ملک کی بڑی برادری میں اپنی مضبوط جڑیں رکھتا ہے۔
موجودہ صورتحال اور آئندہ کے امکانات
لبنانی فوج کے منصوبے کی تفصیلات ابھی تک مکمل طور پر واضح نہیں ہیں، تاہم حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ تمام غیر ریاستی ہتھیار سال کے آخر تک ریاست کے کنٹرول میں آ جانے چاہئیں۔ یہ ایک انتہائی نازک اور پیچیدہ عمل ہوگا جس میں نہ صرف فوجی بلکہ سیاسی، سماجی اور بین الاقوامی عوامل بھی شامل ہوں گے۔
حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے منصوبے کی مخالفت کے باوجود حکومت اس پر عمل درآمد کے لیے پرعزم ہے، اور وزیر اطلاعات پال مورکوس نے اس منصوبے کو ایک اہم موقع قرار دیا ہے۔
خطے پر ممکنہ اثرات
حزب اللہ کی غیر مسلح کرنے کی کوششیں نہ صرف لبنان بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے سیاسی اور عسکری توازن پر اثر ڈال سکتی ہیں۔ ایران، جو حزب اللہ کا مضبوط حمایتی ہے، ممکنہ طور پر اس اقدام کو اپنی علاقائی پالیسیوں کے خلاف سمجھ سکتا ہے، جس سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف، اسرائیل اس قدم کو خوش آئند سمجھتا ہے کیونکہ حزب اللہ کو ایک بڑا اور خطرناک مخالف سمجھا جاتا ہے۔
لبنان میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے فوج کے منصوبے کی کابینہ کی حمایت ایک نیا اور اہم سنگ میل ہے، جو ملک کی سیاسی صورتحال میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، اس سے پیدا ہونے والی کشیدگی اور داخلی تقسیم لبنان کو ایک نازک سیاسی اور سیکیورٹی بحران میں دھکیلنے کا خدشہ بھی رکھتی ہے۔ لبنان کے لیے یہ لمحہ انتہائی اہم ہے کہ وہ کیسے اس بحران کو قابو میں لاتے ہوئے ملک کی سلامتی اور سیاسی استحکام کو برقرار رکھتا ہے۔



