
اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کے حق میں "نیویارک اعلامیہ” پر ووٹنگ: دو ریاستی حل کے لیے نئی عالمی کوشش
دو ریاستی حل کے مؤثر اور عملی نفاذ کی عالمی اپیل شامل کی گئی ہے، جس میں ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کی گئی ہے۔
نیویارک / اقوام متحدہ (بین الاقوامی ڈیسک) — اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جمعے کے روز ایک اہم تاریخی موقع پر "نیویارک اعلامیہ” پر ووٹنگ کی جا رہی ہے، جس کا مقصد مشرقِ وسطیٰ میں دہائیوں سے جاری اسرائیل-فلسطین تنازعے کے حل کے لیے دو ریاستی فارمولے کو از سرِ نو فعال کرنا اور عالمی برادری کو اس سمت میں متحرک کرنا ہے۔
اس اعلامیے کا مسودہ فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ سفارتی کوششوں کا نتیجہ ہے، جسے عرب لیگ سمیت اقوام متحدہ کی سترہ رکن ریاستوں کی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔ اعلامیے کو بین الاقوامی سطح پر مشرقِ وسطیٰ میں امن، استحکام اور فلسطینی عوام کے دیرینہ حقوق کی بحالی کی سمت ایک نئی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اعلامیے کے اہم نکات: حماس کی مذمت اور فلسطینی ریاست کی بنیاد
"نیویارک اعلامیہ” میں چند کلیدی نکات درج ہیں، جو عالمی سیاست میں اہم موڑ کی نشاندہی کرتے ہیں:
7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کی واضح مذمت کی گئی ہے۔
حماس کے زیرِ قبضہ اسرائیلی یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
غزہ میں جاری جنگ کے فوری خاتمے کی اپیل کی گئی ہے۔
جنگ کے بعد حماس کی غزہ میں حکمرانی کا خاتمہ اور اسے اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔
دو ریاستی حل کے مؤثر اور عملی نفاذ کی عالمی اپیل شامل کی گئی ہے، جس میں ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کی گئی ہے۔
اعلامیے کے مطابق، فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں صرف فلسطینی اتھارٹی کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی، جبکہ حماس کو اس مستقبل میں کوئی کردار نہیں دیا جائے گا۔
عرب لیگ اور بین الاقوامی حمایت
"نیویارک اعلامیہ” کو عرب لیگ کی مکمل حمایت حاصل ہے، جس نے اسے مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کی ایک "امید کی کرن” قرار دیا ہے۔ متعدد عرب ممالک اور دیگر بین الاقوامی طاقتوں نے بھی اس اقدام کو سراہا ہے، جن میں یورپی یونین کے کئی رکن ممالک، افریقی و لاطینی امریکی ریاستیں شامل ہیں۔
یہ پیش رفت ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب 22 ستمبر 2025 کو نیویارک میں فرانس اور سعودی عرب کی زیرِ صدارت ایک اعلیٰ سطحی سربراہی کانفرنس منعقد ہونے جا رہی ہے، جس میں فلسطینی مسئلے پر اہم پیش رفت متوقع ہے۔ اطلاعات کے مطابق، فرانس اس موقع پر فلسطین کو باقاعدہ ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان بھی کر سکتا ہے۔
بین الاقوامی برادری کا دو ٹوک مؤقف
عالمی مبصرین کا ماننا ہے کہ نیویارک اعلامیہ میں دو ریاستی حل پر زور اور حماس کو ریاستی ڈھانچے سے باہر رکھنے کا اشارہ دراصل امریکہ، یورپ اور عرب دنیا کے مشترکہ مفادات کا عکاس ہے۔
اعلامیے میں جہاں فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کیا گیا ہے، وہیں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ صرف پرامن اور جمہوری طریقے سے قائم حکومت ہی فلسطینی ریاست کی نمائندہ ہو سکتی ہے۔
اسرائیل کا ردعمل اور حماس کا مؤقف
تاحال اسرائیلی حکومت کی جانب سے اس اعلامیے پر سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم ماضی میں اسرائیل کی قیادت دو ریاستی حل کے تصور سے واضح اختلاف ظاہر کرتی رہی ہے، خاص طور پر جب اس میں 1967 کی سرحدوں کی بات کی جائے۔
دوسری جانب، حماس کی جانب سے بھی ممکنہ ردعمل کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، کیونکہ اس اعلامیے میں تنظیم کی سیاسی و عسکری حیثیت کو مکمل طور پر خارج کر دیا گیا ہے۔
تجزیہ: کیا یہ اعلامیہ امن کی نئی بنیاد بن سکتا ہے؟
عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق، "نیویارک اعلامیہ” ایک سفارتی پیش رفت ضرور ہے، لیکن اس کا عملی نفاذ خطے میں جاری زمینی حقائق، سیاسی تقسیم اور طاقت کے توازن سے مشروط ہو گا۔ اگر عالمی برادری، خاص طور پر امریکہ، یورپی طاقتیں، عرب دنیا اور اقوام متحدہ، مشترکہ طور پر اس فارمولے پر عملدرآمد کو یقینی بناتے ہیں، تو یہ اقدام مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک نئے دور کے آغاز کا باعث بن سکتا ہے۔
خلاصہ
"نیویارک اعلامیہ” پر اقوام متحدہ میں ہونے والی ووٹنگ فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب ایک اہم بین الاقوامی قدم ہے۔ اس میں دو ریاستی حل کی بحالی، غزہ میں جنگ کا خاتمہ، اور حماس کے غیرریاستی کردار کا خاتمہ جیسے نکات شامل ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ عالمی برادری اس اعلامیے کو محض ایک سفارتی دستاویز تک محدود رکھتی ہے یا عملی اقدامات کے ذریعے اسے مشرقِ وسطیٰ میں امن اور انصاف کی بنیاد بناتی ہے۔