مشرق وسطیٰ

ٹیلی گراف کا پاکستان مخالف بیانیہ: انتخابات 2024 کو بدنام کرنے کی کوشش یا جانبدارانہ صحافت؟

2024 کے عام انتخابات کے حوالے سے سنگین الزامات پر مبنی تھی، لیکن جس انداز میں یہ شائع کی گئی

تحریر: فروا امتیاز وائس آف جرمنی کے ساتھ
گزشتہ ہفتے، برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف نے ایک متنازعہ اور سنسنی خیز رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا:
"دولت مشترکہ نے پاکستانی انتخابی دھاندلی کو چھپانے میں مدد کی”
(“Commonwealth helped cover up Pakistani election rigging”)۔
یہ رپورٹ، جو 15 ستمبر 2025 کو منظرِ عام پر آئی، پاکستان کے 2024 کے عام انتخابات کے حوالے سے سنگین الزامات پر مبنی تھی، لیکن جس انداز میں یہ شائع کی گئی، اس نے نہ صرف پیشہ ورانہ صحافت پر سوالات اٹھائے بلکہ اسے ایک خاص سیاسی بیانیے کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔


لیک شدہ یا چنندہ دستاویز؟

ٹیلی گراف کی رپورٹ میں جس "لیک شدہ دولت مشترکہ رپورٹ” کا حوالہ دیا گیا، وہ درحقیقت کامن ویلتھ آبزرور گروپ (COG) کی ایک غیر تصدیق شدہ، ابتدائی مسودہ رپورٹ ہے، جو کہ رسمی طور پر نہ تو شائع ہوئی ہے، نہ ہی اس کی کوئی سرکاری حیثیت تسلیم کی گئی ہے۔

یہ رپورٹ COG کے اس مشن سے متعلق ہے جو فروری 2024 کے عام انتخابات کے دوران پاکستان میں مبصرین کے طور پر موجود رہا۔ اس مشن کی قیادت نائیجیریا کے سابق صدر ڈاکٹر گڈلک جوناتھن نے کی، اور اس میں مختلف ممالک سے 13 غیر جانبدار مبصرین شامل تھے۔

ٹیلی گراف کی رپورٹ میں نہ صرف سیاق و سباق کو نظر انداز کیا گیا بلکہ اس میں ایسے بیانات کو بنیاد بنایا گیا جو صرف پی ٹی آئی (پاکستان تحریک انصاف) کے مخصوص مؤقف کے گرد گھومتے ہیں۔


سیاسی مفادات کے لیے صحافت یا "لابنگ”؟

رپورٹ کے بنیادی ماخذ کے طور پر، ٹیلی گراف نے زلفی بخاری کو بارہا حوالہ دیا — جو کہ پی ٹی آئی کے قریبی ساتھی اور سابق معاون خصوصی رہ چکے ہیں، اور آج کل بیرون ملک پارٹی کے میڈیا اور سیاسی لابنگ امور میں سرگرم ہیں۔

بخاری نہ صرف پی ٹی آئی کے غیر ملکی میڈیا نیٹ ورک کے روحِ رواں ہیں بلکہ برطانیہ اور امریکہ میں پارٹی کے بیانیے کو مضبوط کرنے کے لیے باقاعدہ مہمات چلاتے رہے ہیں۔ جولائی 2025 میں، انہوں نے امریکی کانگریس میں پی ٹی آئی کی طرف سے گواہی بھی دی، جسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کے مترادف سمجھا گیا۔

ٹیلی گراف کی جانب سے بخاری کو ایک سے زیادہ مرتبہ پلیٹ فارم دیا گیا — چاہے وہ عمران خان کی آکسفورڈ چانسلر شپ کی مہم ہو، پی ٹی آئی کے انتخابی نشان پر پابندی کا مسئلہ، یا اب انتخابات 2024 پر مبینہ دھاندلی۔ یہ تسلسل ادارتی غیر جانبداری پر سنگین سوالات کھڑا کرتا ہے۔


ٹیلی گراف کی خاموشیاں: انتخابی غصہ یا ایڈیٹوریل جانبداری؟

ناقدین نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ٹیلی گراف پاکستان کی داخلی سیاست پر تو بار بار آواز بلند کرتا ہے، لیکن عالمی انسانی بحرانوں، مثلاً غزہ میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، پر مکمل خاموش ہے۔

یہ ایڈیٹوریل تضاد اس شک کو مزید تقویت دیتا ہے کہ اخبار مخصوص سیاسی حلقوں کے لیے "ماؤتھ پیس” کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اگر صحافت کا بنیادی اصول "عوامی مفاد میں غیر جانبدار رپورٹنگ” ہے، تو ٹیلی گراف کا رویہ اس اصول کی صریح نفی معلوم ہوتا ہے۔


COG کی اصل رپورٹ: کیا کہا گیا تھا؟

کامن ویلتھ آبزرور گروپ نے انتخابات کے دوران تین مراحل — پری پول، پولنگ ڈے، اور پوسٹ پول — کا مکمل مشاہدہ کیا، اور مختلف سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، انتخابی افسران، اور سیکیورٹی اداروں سے ملاقاتیں کیں۔

ابتدائی بریفنگز میں COG نے درج ذیل نکات پر روشنی ڈالی تھی:

  • انتخابی عمل میں شفافیت کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، لیکن منظم دھاندلی کے شواہد نہیں ملے۔

  • انتخابی کمیشن کی تیاری، خصوصاً شہری مراکز میں، کافی حد تک معیاری تھی۔

  • ووٹرز کے ٹرن آؤٹ میں کمی کو سیاسی بے یقینی سے جوڑا گیا، نہ کہ انتخابی عمل پر عدم اعتماد سے۔

رپورٹ کی باضابطہ اشاعت ستمبر کے آخر میں متوقع ہے، جو کہ دولت مشترکہ کے طریقہ کار کے مطابق ہے۔ ہر مشاہدہ مشن کے بعد رپورٹ کو سفارتی جائزے، قانونی تصدیق، اور متعلقہ حکومت سے تبادلہ خیال کے بعد شائع کیا جاتا ہے — اس میں تاخیر کو "دباؤ” قرار دینا غیر معقول ہے۔


عالمی بیانیہ، اندرونی سیاست

ٹیلی گراف کی رپورٹ صرف صحافتی بے احتیاطی کا معاملہ نہیں بلکہ پاکستان میں ایک مخصوص سیاسی جماعت کے بیانیے کو عالمی سطح پر پھیلانے کی منظم کوشش بھی معلوم ہوتی ہے۔

پی ٹی آئی نے گزشتہ دو برسوں میں متعدد بین الاقوامی اداروں، لابنگ فرموں، اور میڈیا آؤٹ لیٹس کے ذریعے پاکستان میں فوج، عدلیہ، اور الیکشن کمیشن پر الزام تراشی کی مہم جاری رکھی ہے۔ اس کا مقصد اندرونِ ملک قانونی و سیاسی ناکامیوں کا بوجھ عالمی سطح پر مظلومیت کے بیانیے سے چھپانا ہے۔


نتیجہ: صحافت یا پروپیگنڈا؟

ٹیلی گراف جیسے معتبر اخبار سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سنجیدہ رپورٹنگ، تنقیدی تجزیے، اور ادارتی غیر جانبداری کو مقدم رکھے گا۔ لیکن موجودہ رپورٹ نے یہ تاثر دیا ہے کہ اخبار کلک بیٹ، سیاسی مفادات، اور پروپیگنڈا کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔

پاکستان جیسے حساس سیاسی ماحول والے ملک کے حوالے سے اس قسم کی رپورٹنگ نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ یہ داخلی سیاسی عدم استحکام کو مزید بڑھا سکتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی میڈیا ہاؤسز اپنے پلیٹ فارمز کو سیاسی جماعتوں کی توسیع نہ بننے دیں، بلکہ خود مختار اور غیر جانبدار اداروں کی حیثیت سے اپنا وقار قائم رکھیں۔


فروا امتیاز ایک آزاد تجزیہ کار اور صحافی ہیں، جو بین الاقوامی سیاست اور جنوبی ایشیاء کی میڈیا ڈائنامکس پر تحقیق کرتی ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button