
پاکستانی ڈیٹنگ شو "لازوال عشق” یوٹیوب پر ڈیبیو سے قبل ہی شدید تنقید کی زد میں — پیمرا کا مؤقف: "یہ ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہے”
"یہ پروگرام نہ تو مین اسٹریم میڈیا پر نشر کیا جا رہا ہے، اور نہ ہی اتھارٹی کے لائسنس یافتہ کسی ٹی وی چینل سے متعلق ہے۔ یہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتا
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی کے ساتھ:
پاکستانی اداکارہ عائشہ عمر کی میزبانی میں بننے والا پہلا اردو زبان میں ڈیٹنگ شو "لازوال عشق”، جو 29 ستمبر کو یوٹیوب پر ریلیز ہونے جا رہا ہے، اپنے نشر ہونے سے قبل ہی ملک بھر میں شدید عوامی اور مذہبی تنقید کا شکار ہو گیا ہے۔ شو کو معروف بین الاقوامی ریئلٹی سیریز "Love Island” کی طرز پر تیار کیا گیا ہے اور اس کی عکس بندی ترکی کے شہر استنبول میں کی گئی ہے، جہاں چار مرد و خواتین کو ایک لگژری ولا میں اکٹھا رکھا گیا ہے۔
"مغربی تہذیب کی نقالی” یا "ترقی پسند تفریح”؟
اس شو کے پروموز سامنے آنے کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ "لازوال عشق” نہ صرف پاکستانی معاشرتی اور مذہبی اقدار کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ مغربی طرزِ زندگی کی نقالی اور فحاشی کے فروغ کی کوشش ہے۔ متعدد صارفین نے ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر اس شو کو "غیر اسلامی”، "غیراخلاقی” اور "پاکستانی معاشرے پر حملہ” قرار دیا ہے۔
دوسری طرف کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ پاکستان میں تفریح کے نئے اور جُرات مندانہ زاویوں کو آزمانا ایک مثبت قدم ہے اور دنیا کے بدلتے رجحانات کو مدِنظر رکھتے ہوئے نئے کانٹینٹ کو مکمل طور پر رد کرنا مناسب نہیں۔
پیمرا کی وضاحت: "یوٹیوب ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں”
ملک میں پھیلتی ہوئی بے چینی اور عوامی شکایات کے طوفان کے بعد پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو باضابطہ وضاحت جاری کرنا پڑی۔ پیمرا کے ترجمان محمد طاہر نے کہا:
"یہ پروگرام نہ تو مین اسٹریم میڈیا پر نشر کیا جا رہا ہے، اور نہ ہی اتھارٹی کے لائسنس یافتہ کسی ٹی وی چینل سے متعلق ہے۔ یہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ ہم یوٹیوب کو ریگولیٹ نہیں کرتے۔ عام لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ یوٹیوب ہمارے دائرہ کار سے باہر ہے۔”
اس بیان نے ناقدین کے اس مطالبے کو بھی غیر مؤثر کر دیا ہے جس میں وہ شو پر پابندی عائد کرنے کے لیے پیمرا سے فوری اقدامات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
"یہ اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے” — عائشہ عمر
شو کی میزبان، معروف اداکارہ عائشہ عمر نے پاکستان میں قائم فیشن میگزین "فیشن ٹائمز” کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ:
"یہ اردو بولنے والے ناظرین کے لیے اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے۔ اس میں محبت، تعلق اور مقابلہ پیش کیا جائے گا، جس میں ناظرین ہر جوش و ولولے، ہر لڑائی اور ہر دلی تعلق کو محسوس کر سکیں گے۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ شو کی 100 اقساط پر مشتمل یہ سیریز آٹھ شرکاء کے درمیان مختلف چیلنجز اور تعلقات کی بنیاد پر آگے بڑھے گی، جس کے اختتام پر ایک فاتح جوڑا سامنے آئے گا۔
پاکستان میں ڈیٹنگ: قانون اور کلچر
پاکستان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے جہاں غیر ازدواجی تعلقات نہ صرف غیراخلاقی بلکہ قانوناً بھی ممنوع ہیں۔ پاکستانی معاشرہ عمومی طور پر روایتی خاندانی اقدار اور اسلامی اصولوں پر مبنی ہے، جہاں ڈیٹنگ کلچر کو ناپسندیدہ اور بدنام سمجھا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر کیے جانے والے تبصروں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شو نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کی ایک کوشش ہے اور اسے فوری بند کیا جانا چاہیے۔ ایک صارف نے لکھا:
"کیا یہی رہ گیا ہے ہمارے تفریحی مواد کا معیار؟ مغرب کی نقالی کرتے کرتے ہم اپنی شناخت ہی کھو بیٹھیں گے۔”
عالمی رجحانات کی پاکستان میں جھلک؟
یہ شو اس وقت سامنے آیا ہے جب دنیا بھر میں اوور دی ٹاپ (OTT) پلیٹ فارمز، جیسا کہ یوٹیوب، نیٹ فلکس اور ایمازون پر، مقامی زبانوں میں تیار کردہ ریئلٹی شوز کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ بھارت، ترکی اور مشرق وسطیٰ میں بھی اسی نوعیت کے شوز بنائے جا رہے ہیں، جنہیں وہاں کے ناظرین کی جانب سے پذیرائی بھی حاصل ہو رہی ہے۔
"لازوال عشق” بظاہر اس نئے ڈیجیٹل ماحول کا حصہ ہے، جہاں یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز پر کوئی حکومتی ریگولیشن براہِ راست لاگو نہیں ہوتی، اور مواد تیار کرنے والے تخلیقی آزادی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
آگے کیا ہوگا؟
اب جب کہ شو کا پریمیئر 29 ستمبر کو متوقع ہے، یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ:
آیا یہ شو عوامی توقعات پر پورا اترتا ہے یا مکمل بائیکاٹ کا سامنا کرتا ہے؟
کیا حکومت، پارلیمنٹ یا عدلیہ کی جانب سے اس پر کوئی مؤقف یا کارروائی سامنے آتی ہے؟
اور سب سے اہم سوال: کیا پاکستانی معاشرہ ایسی "ڈیجیٹل حدود” کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں؟
فی الحال، پیمرا کے بیان کے مطابق، حکومت کی مداخلت کا کوئی امکان نہیں اور شو بغیر کسی قانونی رکاوٹ کے یوٹیوب پر ریلیز کیا جائے گا۔



