
اسلام آباد / جکارتہ (نمائندہ خصوصی): پاکستان کی معروف طبی اور تعلیمی ادارہ جی اے کے ہیلتھ کیئر انٹرنیشنل نے انڈونیشیا میں اپنی بین الاقوامی توسیع کا باضابطہ آغاز کر دیا ہے، جسے نہ صرف پاکستان کے نجی شعبے کی ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے بلکہ یہ پاک-انڈونیشیا دوطرفہ تعاون کے ایک نئے باب کی شروعات بھی ہے۔ اس اقدام کو پاکستانی ماہرین، سرمایہ کاروں اور اداروں کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی ساکھ اور شراکت داریوں کی ایک اہم مثال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اعلیٰ سطحی وفد کی قیادت: حکومتی اور تعلیمی اسٹیک ہولڈرز سے ملاقاتیں
جی اے کے گروپ کے سی ای او یاسر خان نیازی کی قیادت میں اعلیٰ سطحی وفد نے انڈونیشیا کے مشرقی صوبے نوسا تنگارا تیمور (NTT) میں اہم سرکاری و نجی اداروں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کا اہتمام انڈونیشی وزارت خارجہ، اسلام آباد میں انڈونیشی سفارتخانے، اور RSM پاکستان و RSM انڈونیشیا کے اشتراک سے کیا گیا۔
NTT کے گورنر ہز ایکسیلینسی ایمانوئل میلکیڈیز لاکا لینا کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں پاکستان کے اسلام آباد میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے ماڈل پر انڈونیشیا میں میڈیکل کالج، ریسرچ و ٹریننگ حب کے قیام، اور پاکستانی ماہر ڈاکٹروں کی تعیناتی پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی منتقلی پر تبادلہ خیال
اس موقع پر جی اے کے کے وفد نے انڈونیشیا کے وائس منسٹر آف انویسٹمنٹ اینڈ ڈاؤن اسٹریم انڈسٹری/ ڈپٹی بی کے پی ایم، ہز ایکسیلینسی ریاتنو سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انڈونیشیا میں ٹیکنالوجی پر مبنی جدید طبی خدمات کو فروغ دینے کے لیے تعاون کے امکانات کا جائزہ لیا گیا۔ دونوں فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہ شراکت داری نہ صرف انڈونیشیا کے ہیلتھ کیئر نظام کو تقویت دے گی بلکہ پاکستان کے نجی شعبے کو بین الاقوامی سطح پر ایک معتبر پارٹنر کے طور پر بھی اجاگر کرے گی۔
ہیلتھ ٹورازم اور سرکاری سرپرستی
لابوان باجو میں ویسٹ منگارائی کے ریجنٹ ایڈیسٹاسیئس اینڈی نے جی اے کے کے سی ای او سے ملاقات میں ہیلتھ ٹورازم کو علاقائی ترقی کے لیے ایک کلیدی عنصر قرار دیا اور اس وژن کے لیے مکمل حکومتی تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ انہوں نے صحت کے منصوبوں کو آسان بنانے کے لیے ممکنہ صدارتی احکامات اور زوننگ پالیسی میں رعایت جیسے اقدامات پر بھی آمادگی ظاہر کی۔
تعلیمی اداروں سے شراکت: تحقیق اور طلبہ تبادلہ پر اتفاق
نوسا سینڈانا یونیورسٹی (کُوپانگ) اور آر ایس یو ڈی کوموڈو اسپتال کے رہنماؤں نے بھی جی اے کے کے وژن کی حمایت کرتے ہوئے تعلیم و تحقیق کے شعبے میں تعاون کے متعدد امکانات پر اتفاق کیا۔ یونیورسٹی کے ریکٹر پروفیسر ڈاکٹر میکس یو ای سانم اور اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ماریا یوسفینا میلندا گمپر نے فیکلٹی و اسٹوڈنٹس کے تبادلے، مشترکہ تحقیق، ڈیٹا شیئرنگ اور بتدریج تعلیمی اشتراک جیسے اقدامات کی تجاویز دیں، جو دونوں ممالک کے مابین تعلیمی و سائنسی روابط کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
ایشیا پیسیفک میں مواقع اور پاکستان کی عالمی حیثیت
گروپ سی ای او یاسر خان نیازی نے اس موقع پر کہا:
"یہ توسیعی منصوبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایشیا پیسیفک ہیلتھ کیئر سیکٹر کی مالیت 2030 تک 5 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے، جو دنیا کی مجموعی ہیلتھ کیئر ترقی کا تقریباً 40 فیصد ہوگا۔”
انہوں نے مزید کہا:
"پاکستان میں جی اے کے کی کامیابی، جس میں اسپتال، میڈیکل، ڈینٹل، نرسنگ، اور الائیڈ ہیلتھ سائنسز کالجز شامل ہیں، اب عالمی سطح پر بھی قابل تقلید ماڈل کے طور پر اپنائی جا رہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کو علم، جدت اور صحت کی معیاری خدمات کا عالمی مرکز بنایا جائے۔ یہ صرف معیشت ہی نہیں بلکہ پاکستان کے تشخص کی بھی تعمیر ہے۔”
بین الاقوامی ساکھ اور معاشی امکانات
جی اے کے ہیلتھ کیئر انٹرنیشنل کے ہیڈ آف کمیونیکیشن عمران علی غوری نے کہا:
"یہ منصوبہ پاکستان کے نجی شعبے کی بین الاقوامی ساکھ کی عکاسی کرتا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کی صحت اور تعلیم کی مارکیٹ بے پناہ مواقع سے بھرپور ہے۔ سرمایہ کاروں اور حکومتوں کے لیے یہ شراکت داری نہ صرف سماجی اثرات کی حامل ہے بلکہ مضبوط معاشی فوائد بھی فراہم کرے گی۔”
آئندہ سرمایہ کاری: ملٹی ملین ڈالر کی توقع
جی اے کے کی انڈونیشیا میں توسیع محض آغاز ہے۔ ادارے کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں اس شراکت داری کے تحت ملٹی ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری متوقع ہے، جو دونوں ممالک کے لیے ترقی، روزگار اور تحقیق و تعلیم میں تعاون کے نئے دروازے کھولے گی۔
اختتامیہ:
جی اے کے ہیلتھ کیئر انٹرنیشنل کا انڈونیشیا میں قدم رکھنا نہ صرف پاکستانی اداروں کی بین الاقوامی ساکھ کو مستحکم کرتا ہے بلکہ یہ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے درمیان صحت، تعلیم اور تحقیق پر مبنی تعلقات کو ایک نئی جہت بھی عطا کرتا ہے۔ اس اقدام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی ادارے عالمی چیلنجز کا مؤثر حل فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بشرطیکہ انہیں درست پالیسی، سرکاری سرپرستی اور سرمایہ کاری کی سہولیات میسر ہوں۔



