بین الاقوامیاہم خبریں

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی متنازع تقریر، شدید عالمی احتجاج اور واک آؤٹ

ہال میں "فری فلسطین" کے نعرے بھی لگے، جبکہ کئی نمائندے بازو پر فلسطینی پرچم کی پٹیاں باندھ کر احتجاج کرتے نظر آئے۔

نیویارک / غزہ / یروشلم (بین الاقوامی ڈیسک + نیوز ایجنسیاں)
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے جمعے کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے متنازع خطاب میں ایک بار پھر جنگ پسندانہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ "اسرائیل کو غزہ میں اپنا کام مکمل کرنا ہوگا”۔ ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب عالمی برادری اسرائیل پر غزہ میں جاری جنگ اور انسانی تباہی کے خاتمے کے لیے دباؤ میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے۔

نیتن یاہو کا جنگی مؤقف، فلسطینی ریاست کو "انعام” قرار دیا

اپنی تقریر کے دوران نیتن یاہو نے واضح طور پر کہا کہ فلسطینی ریاست کا قیام دراصل "حماس کو انعام دینے” کے مترادف ہوگا، جسے وہ کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ ان کا یہ بیان عالمی سطح پر فلسطینی ریاست کے قیام کی بڑھتی ہوئی حمایت کے بالکل برعکس ہے۔ واضح رہے کہ حالیہ مہینوں میں آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس، کینیڈا سمیت کئی مغربی ممالک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں، جبکہ یورپی یونین اسرائیل پر ممکنہ پابندیوں پر غور کر رہی ہے۔

خطاب کے دوران شدید احتجاج، درجنوں ممالک کا واک آؤٹ

بینجمن نیتن یاہو کی تقریر کے دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں موجود درجنوں ممالک کے نمائندوں نے شدید احتجاج کیا اور علامتی واک آؤٹ کرتے ہوئے ہال سے باہر نکل گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک ایسے رہنما کی تقریر سننے کے لیے موجود نہیں رہ سکتے، جس پر مبینہ جنگی جرائم کے تحت بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے گرفتاری وارنٹ جاری ہو چکا ہے۔

ہال میں "فری فلسطین” کے نعرے بھی لگے، جبکہ کئی نمائندے بازو پر فلسطینی پرچم کی پٹیاں باندھ کر احتجاج کرتے نظر آئے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکی وفد اپنی نشستوں پر موجود رہا، تاہم اعلیٰ سطحی نمائندے تقریر کے دوران غیر حاضر تھے، جسے واشنگٹن کی جانب سے نرمی سے عدم اتفاق کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔

یہود مخالف جذبات کا الزام اور چارٹ کی سیاست

نیتن یاہو نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے ایک بار پھر تصویری چارٹس کا سہارا لیا اور اپنے ناقدین پر یہود مخالف (Anti-Semitism) ہونے کا الزام عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی تنقید دراصل یہودیوں کے خلاف نفرت پر مبنی ہے، جو ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی تھے۔

خطاب کی غزہ میں لائیو نشریات، عوام میں اشتعال

اسرائیلی فوج نے نیتن یاہو کی تقریر کو نہ صرف غزہ کے سرحدی علاقوں میں لگے لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے نشر کیا بلکہ اطلاعات کے مطابق غزہ کے شہریوں کے موبائل فونز پر بھی یہ تقریر زبردستی نشر کی گئی۔ اس اقدام کو فلسطینی عوام نے اشتعال انگیزی قرار دیا اور مختلف علاقوں میں مظاہرے شروع ہو گئے۔

فلسطینی صدر کی عالمی برادری سے اپیل

نیتن یاہو کے خطاب سے ایک روز قبل فلسطینی صدر محمود عباس نے جنرل اسمبلی سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی تھی کہ فلسطینی عوام کو ان کے ’’جائز حقوق‘‘ دلائے جائیں اور اسرائیلی قبضے کا خاتمہ کیا جائے۔ انہوں نے زور دیا کہ عالمی خاموشی اسرائیلی جارحیت کو مزید طاقتور بنا رہی ہے۔

غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کر گیا

اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں انسانی بحران بے حد سنگین ہو چکا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اب تک 65,000 سے زائد فلسطینی شہری اسرائیلی کارروائیوں میں ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے، جبکہ 90 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔

بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ

اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر سفارتی دباؤ میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس، عالمی عدالت انصاف، انسانی حقوق کی کونسل، اور پاپائے روم سمیت متعدد عالمی شخصیات اور ادارے اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ تاہم نیتن یاہو کا سخت مؤقف اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسرائیل فی الحال عالمی رائے عامہ کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔


نتیجہ:
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی اقوام متحدہ میں اشتعال انگیز تقریر نے نہ صرف عالمی سطح پر شدید ردعمل کو جنم دیا ہے بلکہ فلسطینی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف سمجھی جا رہی ہے۔ جنگ بندی کے عالمی مطالبات کے باوجود اسرائیل کی ہٹ دھرمی نے خطے میں امن کے امکانات مزید معدوم کر دیے ہیں۔ اب یہ عالمی برادری پر منحصر ہے کہ وہ محض بیانات سے آگے بڑھ کر اسرائیل پر عملی دباؤ ڈالے تاکہ غزہ میں جاری انسانی المیہ روکا جا سکے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button