مظفرآباد / میرپور / راولاکوٹ (نمائندہ خصوصی) – جموں کشمیر جوائنٹ پیپلز ایکشن کمیٹی کی جانب سے آزاد کشمیر بھر میں دی گئی شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی کال کو عوام کی جانب سے مجموعی طور پر جزوی ردعمل ملا۔ تینوں ڈویژنز میں معمولات زندگی بڑی حد تک جاری رہے، بیشتر بازار کھلے رہے اور امن و امان کی مجموعی صورتحال قابو میں رہی۔ تاہم، مظفرآباد میں امن مارچ کے دوران پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے نے حالات کو کشیدہ کر دیا، جس کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق جبکہ متعدد شہری اور سیکیورٹی اہلکار زخمی ہو گئے۔
جوائنٹ پیپلز ایکشن کمیٹی کی جانب سے دی گئی احتجاجی کال کے تحت آزاد کشمیر بھر میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد حکومت کے بعض فیصلوں اور پالیسیوں کے خلاف عوامی دباؤ ڈالنا بتایا گیا۔ تاہم مختلف شہروں میں عوام نے اس کال کو بھرپور طور پر رد کرتے ہوئے معمولاتِ زندگی بحال رکھے۔
میرپور ڈویژن میں تمام چھوٹے بڑے شہروں میں کاروبار جزوی طور پر کھلا رہا، جبکہ پونچھ اور مظفرآباد ڈویژن میں عوام نے واضح طور پر ہڑتال کی کال کو مسترد کر دیا۔ ٹرانسپورٹ بھی محدود پیمانے پر سڑکوں پر رواں دواں رہی۔
مظفرآباد میں امن و امان کی فضا اس وقت بگڑ گئی جب مسلم کانفرنس کے زیراہتمام ایک پرامن مارچ پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مبینہ شرپسند عناصر نے حملہ کر دیا۔ مارچ کے دوران فائرنگ کا واقعہ پیش آیا، جس کے نتیجے میں محمد سدھیر ولد محمد سلیمان نامی شہری موقع پر ہی شہید ہو گیا۔ وہ مسلم کانفرنس کا سرگرم کارکن بتایا جا رہا ہے۔
فائرنگ کے نتیجے میں متعدد پولیس اہلکار اور عام شہری بھی زخمی ہوئے، جنہیں فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کیا گیا۔ واقعے کے بعد پولیس نے علاقے کا کنٹرول سنبھال کر حملہ آوروں کی تلاش شروع کر دی ہے۔ انتظامیہ کے مطابق حالات کو جلد قابو میں لے لیا گیا۔
پونچھ ڈویژن کے علاقے ہجیرہ بٹل سیکٹر میں ایک افسوسناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک شہری محمد صدیق، جو خرابی صحت کے باعث اسپتال منتقل کیا جا رہا تھا، راستے میں عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کے باعث تاخیر کا شکار ہو گیا اور موقع پر ہی دم توڑ گیا۔
علاقہ مکینوں نے واقعے پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ "احتجاج کے نام پر عوامی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کا عمل ناقابل قبول ہے”۔
امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر پولیس اور انتظامیہ نے فوری کارروائی کرتے ہوئے مظفرآباد اور پونچھ میں حالات کو قابو میں کیا۔ مظفرآباد میں اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے، جبکہ مشتبہ عناصر کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر مظفرآباد اور ایس ایس پی پولیس نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں شہریوں سے پرامن رہنے اور افواہوں پر کان نہ دھرنے کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "امن قائم رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے، شرپسند عناصر کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔”
آزاد جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے اپنے کارکن محمد سدھیر کی شہادت پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "ایکشن کمیٹی کے نام پر منظم شرپسندی کی جا رہی ہے۔ یہ پرامن احتجاج نہیں بلکہ بغاوت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔”
پارٹی ترجمان کے مطابق "ہم پرامن سیاسی سرگرمیوں پر یقین رکھتے ہیں، لیکن کارکنوں پر حملے ناقابل برداشت ہیں۔”
دوسری جانب جوائنٹ پیپلز ایکشن کمیٹی نے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ "یہ ریاستی عناصر کی سازش ہے تاکہ ہماری تحریک کو بدنام کیا جا سکے۔”
آزاد کشمیر کے مختلف شہروں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق شہریوں کی بڑی تعداد نے احتجاج کی کال کو مسترد کر دیا۔ مظفرآباد، باغ، راولا کوٹ، اور کوٹلی جیسے شہروں میں دکانداروں اور ٹرانسپورٹرز نے معمولات زندگی جاری رکھتے ہوئے شرپسند عناصر کے خلاف نفرت کا اظہار کیا۔
ایک شہری کا کہنا تھا کہ "ہم مسائل کے حل کے لیے پرامن طریقے چاہتے ہیں، لیکن فتنہ پروری اور فساد کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔”
جموں کشمیر جوائنٹ پیپلز ایکشن کمیٹی کی جانب سے دی گئی شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام کی کال کو آزاد کشمیر کے عوام نے مجموعی طور پر مسترد کر دیا۔ تاہم، مظفرآباد میں پیش آنے والے پرتشدد واقعے اور قیمتی انسانی جان کے ضیاع نے ایک سنگین سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا احتجاج کے نام پر ریاستی اداروں اور شہریوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا کسی صورت جائز ہے؟ انتظامیہ نے واضح کر دیا ہے کہ امن میں خلل ڈالنے والے عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔



