یورپاہم خبریں

جرمنی میں حماس سے تعلق کے شبے میں تین مشتبہ افراد گرفتار، اسرائیلی اور یہودی اداروں پر حملے کی منصوبہ بندی ناکام

"یہ واقعہ ایک بار پھر واضح کرتا ہے کہ جرمنی میں دہشت گردی کا خطرہ حقیقی اور سنگین ہے۔"

برلن – بین الاقوامی ڈیسک

جرمنی کے وفاقی حکام نے ملک بھر میں انسدادِ دہشت گردی کارروائیوں کے دوران حماس سے مبینہ طور پر منسلک تین مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے، جن پر الزام ہے کہ وہ اسرائیلی اور یہودی اداروں کو نشانہ بنانے کے لیے اسلحہ اور گولہ بارود اکٹھا کر رہے تھے۔

گرفتار شدگان میں دو جرمن شہری اور ایک لبنانی نژاد باشندہ شامل ہیں جن کی شناخت جرمن قوانین کے تحت عابد ال۔ج، وائل ایف۔ایم، اور احمد آئی۔ کے ناموں سے ظاہر کی گئی ہے۔ یہ گرفتاری ایک ایسے وقت میں عمل میں آئی ہے جب یورپ بھر میں فلسطین-اسرائیل تنازع کے تناظر میں یہودی برادریوں پر حملوں کے خطرات میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔


ممکنہ دہشت گرد حملے کی منصوبہ بندی ناکام

وفاقی پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ گرفتار افراد حماس کے لیے کام کر رہے تھے اور اسرائیلی یا یہودی تنصیبات پر "ٹارگٹڈ کلنگ” کے ارادے سے ہتھیار جمع کر رہے تھے۔

چھاپوں کے دوران حکام نے:

  • کلاشنکوف (AK-47) رائفل

  • متعدد پستول

  • بھاری مقدار میں گولہ بارود

برآمد کر لیا۔ یہ کارروائیاں برلن، لائپزگ اور اوبرہاؤزن کے مختلف مقامات پر کی گئیں۔


مشتبہ افراد کی گرفتاری ایک منصوبہ بند کارروائی کا نتیجہ

وفاقی وزیر داخلہ الیگزینڈر ڈوبرِنٹ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ مشتبہ افراد کافی عرصے سے حکام کی نگرانی میں تھے اور ان کی سرگرمیوں پر خفیہ اداروں کی جانب سے مسلسل نظر رکھی جا رہی تھی۔ انہوں نے کہا:

"یہ واقعہ ایک بار پھر واضح کرتا ہے کہ جرمنی میں دہشت گردی کا خطرہ حقیقی اور سنگین ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ گرفتاریاں ایک ایسی ملاقات کے دوران کی گئیں جب مشتبہ افراد اسلحہ کے تبادلے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔


یہودی برادری کو لاحق خطرات

وفاقی وزیر انصاف اسٹیفنی ہوبِگ نے واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:

"یہ واضح ہے کہ یہودی برادری کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔ ہم سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ یہودی برادری کا تحفظ یقینی بنائیں اور **کسی بھی صورت میں سامیت دشمنی کو برداشت نہ کیا جائے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ کسی بھی دہشت گرد گروہ یا اس کے ہمدردوں کو جرمنی میں سرگرم ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔


حماس کے ساتھ تعلق یا ہمدردی؟

ابتدائی تفتیش کے مطابق حکام یہ تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا یہ افراد براہِ راست حماس کی اعلیٰ قیادت کی ہدایت پر کارروائی کر رہے تھے یا وہ تنظیم کے ہمدردوں کے طور پر خود مختارانہ طور پر متحرک تھے۔

پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ مزید تحقیقات جاری ہیں اور ملزمان کو جمعرات کے روز عدالت میں پیش کیا جائے گا، جہاں ان کے خلاف باقاعدہ دہشت گردی، غیرقانونی اسلحہ رکھنے اور منصوبہ بندی کے الزامات عائد کیے جانے کا امکان ہے۔


جرمنی میں حماس پر مکمل پابندی

واضح رہے کہ:

  • جرمنی، یورپی یونین، امریکہ اور دیگر کئی ممالک نے حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔

  • حالیہ مہینوں میں حماس سے وابستہ سرگرمیوں پر کریک ڈاؤن میں شدت لائی گئی ہے، خاص طور پر اکتوبر 2023 میں حماس-اسرائیل جنگ کے بعد جب یورپ میں کئی مظاہروں اور واقعات کے بعد سیکیورٹی خدشات میں اضافہ ہوا تھا۔


عالمی تناظر میں اہم پیش رفت

یہ گرفتاری ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دنیا بھر میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع پر رائے عامہ منقسم ہے۔
ایک طرف فلسطینیوں کی حالتِ زار پر ہمدردی کا اظہار کیا جا رہا ہے، تو دوسری طرف یورپی ممالک میں یہودی برادریوں پر ممکنہ حملوں کے خطرات کے باعث حکومتیں سخت سیکیورٹی اقدامات پر مجبور ہو گئی ہیں۔


نتیجہ: سیکیورٹی بمقابلہ آزادی

یہ واقعہ ایک بار پھر اس پیچیدہ سوال کو جنم دیتا ہے کہ سیکیورٹی تحفظات اور شہری آزادیوں میں توازن کیسے قائم رکھا جائے؟ جرمن حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل پیرا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ایسے اقدامات بین الاقوامی سیاسی کشیدگیوں کے دوران علاقائی اقلیتوں اور سیاسی ہمدردوں کو کس طرح متاثر کر سکتے ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button