
غزہ شہر سے تمام فلسطینیوں کو نکل جانے کا حکم — اسرائیلی وزیر دفاع کا “آخری موقع” اور بین الاقوامی تشویش
اُن کے بقول یہ حکم اُس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد عسکریت پسند عناصر کو شہری آبادی سے الگ کرنا اور فوجی کارروائیوں کے دوران مسلح گروہوں کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا ہے۔
(وائس آف جرمنی اردو نیوز عالمی ڈیسک-خصوصی رپورٹ) — اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے اعلان کیا ہے کہ غزہ شہر میں مقیم تمام فلسطینی شہریوں کو فوراً شہر چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا ہے، جسے انہوں نے “آخری موقع” قرار دیا اور کہا کہ جو لوگ حکم کی پابندی نہ کریں گے انہیں عسکریت پسند سمجھا جائے گا۔ یہ اعلان خطے میں کشیدگی اور انسانی ہنگامی کیفیت کے نئے مرحلے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
وزیر دفاع کا اعلان اور اس کے الفاظ
اسرائیلی وزیر دفاع نے اپنے بیان میں واضح طور پر کہا کہ غزہ شہر میں موجود تمام شہریوں کے لیے شہر چھوڑنا ضروری اور اعلانیہ ہدایت ہے۔ اُن کے بقول یہ حکم اُس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد عسکریت پسند عناصر کو شہری آبادی سے الگ کرنا اور فوجی کارروائیوں کے دوران مسلح گروہوں کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ اس ہدایت پر عمل نہ کریں گے اُنہیں "عسکریت پسند” تصور کیا جائے گا — بیانیہ جو مستقبل میں فوجی کارروائیوں اور ممکنہ نتائج کے تعین میں اہم حیثیت رکھ سکتا ہے۔
فوری انسانی و عملی مسائل
وزیر دفاع کے اس اعلان کے بعد معاشی، سماجی اور انسانی پہلوؤں میں کئی سنگین مسائل جنم لیتے ہیں:
بڑی تعداد میں نقل مکانی: غزہ شہر کی آبادی کثیف ہے — شہری ہر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور فوری طور پر منتقل کرنے کے لیے ذرائعِ آمد و رفت، پناہ گاہیں اور بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہو سکتیں۔
پناہ گاہوں اور بنیادی ڈھانچے پر دباؤ: قریبی شہروں اور بستیوں میں پناہ گاہوں، طبی سہولیات اور خوراک کی قلت کا خدشہ پیدا ہوگا۔
خواتین، بچے اور کمزور افراد: معمر افراد، بچے، حاملہ خواتین اور بیمار لوگوں کے لیے بے گھر ہونا خاص طور پر خطرناک ہے — طبی امداد، مستقل نگہداشت اور دواؤں کی دستیابی متاثر ہو سکتی ہے۔
ہسپتالوں اور طبی سہولیات کی صورتحال: اگر شہری نقل مکانی کریں تو ہسپتالوں میں موجود مریضوں، زخمیوں اور طبی عملے کی حفاظت اور علاج کے تسلسل کو برقرار رکھنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
رسائی برائے انسانی امداد: امدادی رفقاء اور اداروں کے لیے محفوظ راستے، کلیئرڈ کورڈورز اور بروقت اجازت نہ ہونے کی صورت میں امداد پہنچانا مشکل تر ہو جائے گا۔
بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے پہلو
بین الاقوامی انسانی حقوق اور بین الاقوامی انسانی ہتھیار قوانین (IHL) کے تحت فوجی کارروائیوں میں شہری آبادی کی حفاظت، فرقانِ عمل (distinction) اور تناسب (proportionality) کے اصول ضروری تصور کیے جاتے ہیں۔ شہریوں کو نقل مکانی کے لیے لازمی نہ سمجھ کر اکسانا یا انہیں بغیر محفوظ متبادل کے بے گھر کرنا انسانی حقوق کے نقطۂ نظر سے سنگین تشویش کا باعث بنتا ہے۔ بین الاقوامی برادری عموماً اس طرح کی صورتِ حال میں:
بے گھر ہونے والوں کے تحفظ،
فضائی، سمندری یا زمینی راستوں کے ذریعے محفوظ نقل و حرکت،
اور غزہ میں ضروری اشیاء، دوا اور طبی امداد تک بلا رکاوٹ رسائی کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔
فلسطینی حکومت اور مقامی حکام کا امکانِ ردِعمل
عام طور پر ایسے اعلانات پر غزہ کے مقامی حکام، سول انتظامیہ یا فلسطینی سیاسی رہنماؤں کی جانب سے سخت ردِعمل متوقع ہوتا ہے — وہ اس قسم کے احکامات کی قانونی حیثیت، عملی امکان اور شہری تحفظ کے معاملات پر تحفظات اٹھا سکتے ہیں۔ مقامی انتظامیہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ممکنہ طور پر بلا تاخیر بین الاقوامی تحفظات اور فوری انسانی رسپانس کا مطالبہ کریں گی۔
عالمی ردعمل کے امکانات اور امدادی برادری کی تشویش
پچھلے واقعات اور عالمی رجحانات کے پیشِ نظر، بین الاقوامی ادارے اور امدادی تنظیمیں عموماً فوراً رد عمل دیتی ہیں:
اقوامِ متحدہ، ریڈ کراس اور بڑی این جی اوز ممکنہ انسانی بحران کی نشاندہی کریں گی اور محفوظ راستے، انسداد وباؤں اور بنیادی رسد کے انعقاد کا مطالبہ کریں گی۔
کئی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شہریوں کی فوری حفاظت، ان کی فوری رہائی/منتقل ہونے کے لیے معاونت اور شفافیت کا تقاضا کریں گی۔
سفارتی چینلوں کے ذریعے فریقین کو تحمل اور بین الاقوامی انسانی قانون کے تقاضوں کی پابندی کی ترغیب دی جائے گی۔
عملی سوالات اور چیلنجز
یہ اعلان کئی عملی سوالات بھی جنم دیتا ہے جن کا فوری حل درکار ہوگا:
شہری کہاں منتقل ہوں گے اور کیا ان کے لیے محفوظ پناہ گاہیں دستیاب ہیں؟
نقل مکانی کے راستے کتنے محفوظ اور واضح ہیں؟ کیا زمینی یا سمندری کورڈرز کھولے جائیں گے؟
طبی خدمات، خوراک، پانی اور صفائی کی سہولیات کے انتظام کا کون ذمہ دار ہوگا؟
کیا بین الاقوامی امدادی اداروں کو فوری رسائی دی جائے گی؟
بچوں، معذوروں اور معمر افراد کے لیے خصوصی انتظامات کیسے کیے جائیں گے؟
نتیجہ: کشیدگی کے نئے مرحلے میں انسانی تحفظ اولین ضرورت
اسرائیلی وزیر دفاع کے اس اعلان نے غزہ کی صورتِ حال کو ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سیکورٹی کے تقاضے اور انسانی حقوق و انسانی ضروریات کے تقاضوں کے درمیان باریک توازن قائم رکھنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس وقت سب سے اہم یہ ہے کہ:
شہریوں کی حفظانِ سلامت کو یقینی بنایا جائے؛
اگر نقل مکانی لازمی ہے تو مصون، واضح اور مربوط کورڈرز فراہم کیے جائیں؛
بین الاقوامی امدادی اداروں کو فوری اور بلا روک ٹوک رسائی دی جائے؛
کسی بھی کارروائی میں بین الاقوامی انسانی قوانین اور قواعدِ جنگ کی پابندی کو یقینی بنایا جائے؛ اور
تمام فریق شفاف اور بروقت معلومات فراہم کریں تاکہ افواہوں اور غیر یقینی صورتحال سے بچا جا سکے۔