
افغان وزیر خارجہ کا متنازعہ اعلان: "ہندوستانی سرمایہ کاری کے بدلے مندر کھولنے پر آمادہ ہیں”
"طالبان حکومت کی یہ نئی پالیسی بظاہر اقتصادی مفادات کے تحت دی گئی ہے، لیکن اسے عوامی سطح پر قبول کرانا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔"
کابل (خصوصی نمائندہ):
افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے حالیہ دنوں ایک ایسا بیان دیا ہے جو نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی گہرے ردِعمل کا باعث بن رہا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ "اگر بھارت افغانستان میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو ہم اُن کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے کچھ مخصوص علاقوں میں ہندوؤں کے مندروں کے قیام کی اجازت دے سکتے ہیں۔”
یہ بیان کابل میں ایک غیر رسمی پریس بریفنگ کے دوران سامنے آیا، جس میں انہوں نے افغانستان کی معیشت کی ابتر صورتحال، بین الاقوامی تجارت، اور بھارت سمیت دیگر علاقائی طاقتوں سے تعلقات کے موضوعات پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا:
"افغانستان خطے میں پرامن تجارتی روابط اور مذہبی رواداری کا خواہاں ہے۔ اگر بھارت، جو ایک بڑا معیشتی کھلاڑی ہے، ہمارے انفراسٹرکچر، صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کرے تو ہم بھی اُن کی مذہبی اقلیتوں کے لیے عبادت کے مقامات مہیا کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔"
بھارت کے ساتھ تعلقات کی نئی جہت؟
متقی کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب طالبان حکومت کو بین الاقوامی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا ہے، اور ملک کی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے۔ افغانستان میں 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بھارت نے کابل کے ساتھ براہِ راست سفارتی روابط محدود کر دیے تھے، تاہم حالیہ مہینوں میں دونوں ممالک کے درمیان رابطوں میں بتدریج بہتری دیکھی گئی ہے۔
متقی نے کہا کہ افغانستان میں موجود اقلیتی برادریوں، جن میں سکھ اور ہندو شامل ہیں، کو مکمل مذہبی آزادی دی جائے گی اگر وہ افغانستان میں مثبت کردار ادا کریں۔ اُن کے مطابق، "یہ اقدامات مذہبی ہم آہنگی اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ بہتر تعلقات کے فروغ کے لیے ضروری ہیں۔”
اندرونِ ملک شدید ردِعمل
تاہم اس بیان کے فوراً بعد افغانستان کے اندر خاصا ردِعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ کچھ مذہبی اور سیاسی حلقوں نے اسے "اسلامی اقدار کے خلاف” قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ موضوع ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے، جہاں صارفین کی رائے منقسم ہے۔
کابل یونیورسٹی کے ایک اسلامیات کے پروفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا:
"طالبان حکومت کی یہ نئی پالیسی بظاہر اقتصادی مفادات کے تحت دی گئی ہے، لیکن اسے عوامی سطح پر قبول کرانا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔"
بھارت کی خاموشی
دوسری جانب، بھارتی وزارت خارجہ نے تاحال اس بیان پر کوئی باضابطہ ردِعمل نہیں دیا۔ تاہم نئی دہلی کے بعض سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت افغانستان میں انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی جاری رکھے گا، لیکن مذہبی مقاصد کے تحت کسی قسم کی سرمایہ کاری یا مداخلت پر تاحال غور نہیں کیا جا رہا۔
طالبان حکومت کی نئی سوچ؟
طالبان کی حکومت نے ماضی کے برعکس، اس بار بین الاقوامی برادری سے تعلقات بہتر بنانے، غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے، اور نرم مزاجی کی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالیہ مہینوں میں انہوں نے خواتین کی تعلیم، میڈیا کی آزادی، اور مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے بھی چند مثبت اشارے دیے ہیں، اگرچہ زمینی حقائق ابھی بھی متنازع ہیں۔
نتیجہ
افغان وزیر خارجہ متقی کا بیان افغانستان میں ایک نئے دور کے آغاز کا اشارہ ہو سکتا ہے — ایک ایسا دور جہاں طالبان مذہبی شدت پسندی کے بجائے سفارتی اور معاشی حقیقتوں کو مدنظر رکھ کر فیصلے کریں۔ تاہم آیا یہ محض ایک علامتی اعلان ہے یا واقعی عملی اقدامات کی طرف پیش رفت ہوگی، یہ وقت ہی بتائے گا۔