
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
ملک کے مختلف شہروں میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کارکنان کی جانب سے حالیہ احتجاجی مظاہروں کے دوران پولیس اہلکاروں پر فائرنگ، املاک کی تباہی، اور لوٹ مار کے واقعات نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہائی الرٹ کر دیا ہے۔ حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ واقعات صرف احتجاجی سرگرمیوں تک محدود نہیں بلکہ یہ کھلی بغاوت اور دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق، گزشتہ چند دنوں کے دوران لاہور، گوجرانوالہ، راولپنڈی اور کراچی سمیت مختلف شہروں میں پرتشدد جھڑپوں کے دوران کم از کم 7 پولیس اہلکار زخمی ہوئے، جبکہ متعدد سرکاری و نجی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔ ٹی ایل پی کے مظاہرین نے سڑکیں بلاک کر کے شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت کو بھی متاثر کیا، جس سے عوامی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔
وزارت داخلہ کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ:
"حکومت پر حملے، پولیس پر فائرنگ اور تشدد، املاک کی تباہی اور لوٹ مار، یہ احتجاج نہیں بلکہ کھلی بغاوت ہے۔ یہ عناصر ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں، اور ایسے اقدامات کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔”
ریاستی رٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ٹی ایل پی کے بعض مسلح گروپ قانون کو بالادست نہیں سمجھتے اور منظم طریقے سے افراتفری پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب ریاست امن و امان کے قیام کے لیے کارروائی کرتی ہے تو یہی عناصر مظلوم بننے کا ڈرامہ رچاتے ہیں اور خود کو سیاسی مظلومیت کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ امور نے واضح الفاظ میں کہا:
"ریاست کمزور نہیں ہے۔ قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے گی۔ کسی کو بھی ریاستی اداروں پر حملے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔”
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جوابی کارروائیاں
پولیس اور رینجرز نے مشترکہ کارروائیوں کے دوران مختلف شہروں سے درجنوں مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے جن پر توڑ پھوڑ، پولیس پر حملے، اور غیر قانونی اجتماع کا الزام ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گرفتار افراد سے اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد بھی برآمد ہوا ہے۔
ٹی ایل پی کا مؤقف
دوسری جانب ٹی ایل پی کی قیادت نے حکومت پر الزامات عائد کیے ہیں کہ وہ ان کے پرامن احتجاج کو طاقت سے کچل رہی ہے۔ پارٹی ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کے کارکنان اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں، لیکن حکومت نے طاقت کا غیر ضروری استعمال کیا۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پرامن احتجاج اور مسلح تصادم میں واضح فرق ہوتا ہے، اور موجودہ حالات میں جو کچھ سڑکوں پر ہو رہا ہے، وہ کسی جمہوری حق کے دائرے میں نہیں آتا۔
سیاسی و سماجی ردعمل
ملک کے مختلف سیاسی و سماجی حلقوں نے بھی ان واقعات کی شدید مذمت کی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام فریقین قانون کا احترام کریں اور ایسے اقدامات سے گریز کریں جو ریاستی اداروں اور عام شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں۔
نتیجہ: کیا آگے ہو گا؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ریاست نے ایسے عناصر کے خلاف سخت موقف نہ اپنایا تو یہ رحجان مزید خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے۔ فی الحال، قانون نافذ کرنے والے ادارے الرٹ ہیں، اور ریاستی بیانیہ واضح ہے: ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کو ہرگز بخشا نہیں جائے گا۔



