
غزہ امن معاہدہ پر عملدرآمد کا آغاز، اسرائیل نے 2 ہزار فلسطینی قیدی رہا کر دیے
حماس نے 20 اسرائیلی یرغمالی مرحلہ وار رہا کیے، عرب دنیا میں خیرمقدم
رپورٹ: بین الاقوامی امور ڈیسک
غزہ / یروشلم / رام اللہ (عالمی ڈیسک): مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے دوران ایک بڑی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے، جہاں اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پانے والے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے امن معاہدے پر باضابطہ عمل درآمد کا آغاز ہو گیا ہے۔ معاہدے کے تحت اسرائیل نے 2 ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا ہے جبکہ حماس نے 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو مرحلہ وار آزاد کر دیا ہے۔
یرغمالیوں کی رہائی: دو مراحل میں عمل درآمد
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی دو مراحل میں مکمل کی گئی۔
پہلے مرحلے میں 7 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا گیا،
دوسرے مرحلے میں مزید 13 افراد کو رہا کیا گیا،
اس کے علاوہ چار ہلاک شدہ یرغمالیوں کی لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کی گئیں۔
رہائی پانے والے یرغمالیوں میں خواتین، بزرگ افراد اور بعض زخمی افراد بھی شامل ہیں۔ ان کی حالت کا معائنہ کرنے کے لیے فوری طور پر طبی ٹیمیں متحرک ہو گئیں جبکہ ان کے اہل خانہ نے جذباتی انداز میں ان کا استقبال کیا۔
اسرائیل کا بڑا اقدام: 2 ہزار فلسطینی قیدی رہا
اس معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید 2 ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہائی دی گئی، جن میں:
250 ایسے قیدی شامل ہیں جو عمر قید کی سزا بھگت رہے تھے۔
دیگر قیدیوں پر سنگین الزامات عائد تھے، جن میں سیاسی سرگرمی، احتجاج، یا مبینہ سیکیورٹی خطرات شامل تھے۔
رہائی کے بعد ان قیدیوں کو 38 بسوں کے ذریعے جنوبی غزہ اور مغربی کنارے منتقل کیا گیا۔
عرب میڈیا کے مطابق رہائی پانے والے قیدیوں کو ابتدائی طور پر جنوبی غزہ کے النصر اسپتال لے جایا گیا، جہاں طبی جانچ اور نفسیاتی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔
قیدیوں کی واپسی پر جذباتی مناظر
فلسطینی علاقوں میں قیدیوں کی رہائی کے مناظر نہایت جذباتی اور تاریخی نوعیت کے تھے۔
ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے،
قیدیوں کا پھولوں اور نعروں سے استقبال کیا گیا،
کئی خاندانوں نے عشروں بعد اپنے پیاروں سے ملاقات کی،
قیدیوں کے ساتھ فتح اور آزادی کے نعرے بھی گونجتے رہے۔
غزہ، رفح، خان یونس، نابلس، اور رام اللہ سمیت کئی شہروں میں عوامی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ریلیاں نکالی گئیں۔
عالمی برادری کا خیرمقدم، امن کی امید
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان اس تاریخی قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی معاہدے کو عالمی سطح پر بھی خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ، یورپی یونین، چین، ترکی، قطر، اور مصر سمیت کئی ممالک نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے خطے میں پائیدار امن کی طرف ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا:
"ہم دونوں فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مثبت پیش رفت کو مستقل امن میں تبدیل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں۔”
معاہدے کے پسِ منظر میں انسانی بحران
یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں طے پایا جب غزہ اور اسرائیل کے درمیان شدید جھڑپوں اور فضائی حملوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔
غزہ میں صحت، خوراک اور پانی کا بحران بدترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق، 70 فیصد آبادی بنیادی سہولیات سے محروم ہو چکی ہے۔
اس تناظر میں یہ معاہدہ ایک عارضی سکون فراہم کر سکتا ہے، لیکن مستقل حل کی ضرورت بدستور باقی ہے۔
آگے کا راستہ: اعتماد سازی یا وقتی اقدام؟
تجزیہ کاروں کے مطابق، اگرچہ یہ قیدیوں کا تبادلہ ایک مثبت اشارہ ہے، تاہم دونوں فریقین میں گہرا عدم اعتماد، زمینی حقائق، اور ماضی کی تلخیاں مستقبل میں امن کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ:
"اگر اس معاہدے کو صرف ایک وقتی حکمت عملی سمجھا گیا تو یہ جلد ٹوٹ جائے گا۔ لیکن اگر اسے اعتماد سازی کے ایک موقع کے طور پر اپنایا گیا تو خطے میں ایک نئی امن فضاء کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔”
نتیجہ: تاریخی لمحہ یا عارضی سکون؟
غزہ اور اسرائیل کے درمیان حالیہ پیش رفت کو بعض مبصرین تاریخی لمحہ قرار دے رہے ہیں، جبکہ دیگر کے نزدیک یہ صرف ایک وقفہ ہے جو کسی بھی وقت دوبارہ خونریزی میں بدل سکتا ہے۔
تاہم اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ دو ہزار فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور 20 اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی سے دونوں معاشروں میں وقتی طور پر امید، راحت اور جذباتی ریلیف پیدا ہوا ہے۔