پاکستاناہم خبریں

حافظ گل بہادر، جو کبھی ’گڈ طالبان‘ شمار کیا جاتا تھا

پاکستانی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے مطابق ان تازہ حملوں کے نتیجے میں اس گروپ کے ساٹھ تا ستر ''دہشت گردوں‘‘ کو ہلاک کر دیا گیا

وائس آف جرمنی اردو نیوز ڈیسک

حافظ گل بہادر نے ماضی میں نہ صرف پاکستانی فوج پر حملوں کی مخالفت کی تھی بلکہ تحریک طالبان پاکستان سے بھی اتحاد نہ بنایا تھا۔ تاہم اب یہ جنگجو کمانڈر پاکستانی سکیورٹی فورسز کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔

مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق سن 2001 میں افغانستان میں امریکہ اور اتحادی افواج کی طرف سے جنگ شروع کیے جانے کے بعد حافظ گل بہادر نے عسکریت پسندی کا راستہ چنا تھا۔ تب افغان سرحد سے متصل پاکستانی علاقے شمالی وزیرستان میں فعال اس گروہ نے پاکستانی فوج پر حملوں کی مخالفت کی تھی۔ اس لیے اس گروہ کو ”گڈ طالبان‘‘ بھی قرار دیا گیا۔

عسکریت پسند کمانڈر گل بہادر نے تحریک طالبان پاکستان کا باضابطہ طور پر اتحادی بننا بھی پسند نہیں کیا تھا۔ تاہم گل بہادر کی افغان طالبان سے قربت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے۔ کچھ سکیورٹی ماہرین کے مطابق گل بہادر اور افغان طالبان کے ایک اہم رہنما سراج الدین حقانی کے مابین قریبی تعلق تھا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ایک مضمون کے مطابق اس لیے گل بہادر اور القاعدہ کے مابین بھی روابط پیدا ہو گئے۔

وانا، جنوبی وزیرستان، پاکستانی طالبان
گل بہادر گروپ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے، فائل فوٹوتصویر: AFP

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں مضبوط گڑھ بنانے والے گل بہادر نے القاعدہ کے اہم جنگجوؤں کو پناہ دی اور افغانستان میں امریکہ اور اس کی اتحادی فورسز پر حملوں میں معاونت بھی فراہم کی۔ اسی دوران اس عسکریت پسند گروہ نے پاکستانی حکومت کے ساتھ مبینہ طور پر ایک معاہدہ بھی کر لیا تھا۔

سن 2006 میں شمالی وزیرستان کے مقامی طالبان اور حکومت کے مابین ایک ڈیل ہوئی، جس کے تحت غیر ملکی جنگجوؤں کو علاقہ بدر کرنے اور ساتھ ہی طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں کی افغانستان آمد و رفت پر پابندی لگانے پر اتفاق ہوا۔

یہ وہی دور تھا، جب گل بہادر کا گروہ ‘گڈ طالبان‘ قرار دیا جانے لگا تاہم ناقدین کے مطابق دراصل یہ اس گروہ کی حکمت عملی تھی کیونکہ اس نے اپنی تمام تر توجہ افغانستان میں امریکی اور اس کے اتحادیوں پر حملے کرنے پر مرکوز کر رکھی تھی۔

سن 2009 میں جنوبی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف عسکری آپریشن شروع ہوا تو بہت سے جنگجو شمالی وزیرستان فرار ہو گئے۔ یوں حکومت پر دباؤ بڑھا کہ وہ افغان سرحد سے متصل اس علاقے میں بھی کارروائی شروع کرے۔

تاہم سن 2014 میں پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی، جس کے نتیجے میں گل بہادر سمیت متعدد شدت پسند گروہ افغانستان منتقل ہو گئے۔

افغانستان منتقلی کے بعد گل بہادر گروپ کمزور ہو گیا تاہم اگست سن 2021 میں افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اس گروپ نے دوبارہ منظم ہونا شروع کیا تو اس نے پاکستانی علاقوں میں حملے شروع کر دیے۔ اس وقت گل بہادر گروپ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button