
ہولی فیملی اسپتال راولپنڈی کے سینئر ڈاکٹرز نجی اسپتالوں میں مصروف، سرکاری نظام متاثر — مریضوں کی جانوں سے کھیلنے کا انکشاف
"کئی سینئر ڈاکٹرز دن کے اوقات میں بھی اسپتال میں موجود نہیں ہوتے۔ جب مریض پوچھتے ہیں تو بتایا جاتا ہے کہ وہ راؤنڈ پر ہیں، مگر اصل میں وہ پرائیویٹ اسپتالوں میں آپریشن کر رہے ہوتے ہیں۔"
تحقیقی رپورٹ: چوہدری دانش نواز
راولپنڈی: راولپنڈی کے معروف سرکاری طبی ادارے ہولی فیملی اسپتال کے متعدد سینئر ڈاکٹرز اور ماہرین نے سرکاری فرائض کی انجام دہی کے بجائے قریبی نجی اسپتالوں میں آپریشن اور علاج معالجہ شروع کر دیا ہے، جس کے باعث نہ صرف سرکاری اسپتال کا نظام شدید متاثر ہو رہا ہے بلکہ مریضوں کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
پرائیویٹ اسپتالوں میں “سستا علاج” مہنگی قیمت پر
ذرائع کے مطابق ہولی فیملی اسپتال کے کئی سینیئر کنسلٹنٹس اور سرجنز روزانہ مخصوص اوقات میں اسپتال سے غیر حاضری اختیار کر کے قریبی نجی اسپتالوں میں مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اسپتال وہ ہیں جن کے ساتھ سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرز کا ذاتی یا غیر رسمی تعلق ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ یہ ڈاکٹرز پرائیویٹ اسپتالوں میں مہنگے داموں آپریشنز اور علاج کرتے ہیں، اور جب مریضوں کی حالت بگڑتی ہے یا کوئی پیچیدگی پیدا ہوتی ہے تو انہیں خاموشی سے ہولی فیملی اسپتال منتقل کر دیا جاتا ہے، جہاں مریض کو سرکاری سہولت کے طور پر رجسٹر کیا جاتا ہے۔
سرکاری اسپتال کا نظام بحران کا شکار
اس صورت حال نے ہولی فیملی اسپتال جیسے بڑے سرکاری طبی ادارے کے آپریشنل نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اسپتال میں مریضوں کی طویل قطاریں، آپریشنز میں تاخیر، ڈاکٹرز کی عدم دستیابی، اور بنیادی سہولیات کی قلت ایک معمول بن چکی ہے۔
ایک سینیئر نرس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا:
"کئی سینئر ڈاکٹرز دن کے اوقات میں بھی اسپتال میں موجود نہیں ہوتے۔ جب مریض پوچھتے ہیں تو بتایا جاتا ہے کہ وہ راؤنڈ پر ہیں، مگر اصل میں وہ پرائیویٹ اسپتالوں میں آپریشن کر رہے ہوتے ہیں۔”
اہل علاقہ اور مریضوں کا احتجاج
اہل علاقہ اور مریضوں کے لواحقین نے اس صورت حال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کے ٹیکس سے تنخواہ لینے والے ڈاکٹرز اگر نجی کاروبار میں مشغول ہو جائیں تو سرکاری اسپتالوں کے قیام کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
مقامی رہائشی محمد زبیر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا:
"یہ ظلم ہے کہ غریب آدمی سرکاری اسپتال آتا ہے تاکہ سستے علاج کی سہولت ملے، مگر یہاں ڈاکٹرز موجود ہی نہیں۔ سب پرائیویٹ اسپتالوں میں پیسے کمانے میں لگے ہیں۔ حکومت کہاں ہے؟”
غیر تربیت یافتہ عملہ اور ناقص سہولیات
نجی اسپتالوں میں علاج کے دوران ایک اور خطرناک پہلو سامنے آیا ہے — غیر تربیت یافتہ پیرامیڈیکل عملہ اور غیر معیاری سہولیات۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کئی نجی اسپتالوں میں بنیادی طبی سہولیات بھی موجود نہیں، مگر وہاں بڑے سائن بورڈز اور جھوٹے دعوے کیے جا رہے ہیں۔
ان اسپتالوں کی اکثریت کسی باقاعدہ طبی لائسنس، رجسٹریشن یا ٹیکس نظام کے تحت کام نہیں کر رہی۔ محکمہ صحت کی مبینہ چشم پوشی اور مبینہ محکمانہ ملی بھگت کے باعث یہ نجی اسپتال بلا روک ٹوک کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب اور محکمہ صحت سے نوٹس لینے کا مطالبہ
عوامی سطح پر شدید ردعمل کے بعد شہریوں اور سماجی تنظیموں نے وزیراعلیٰ پنجاب، سیکریٹری ہیلتھ اور راولپنڈی کے کمشنر سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ:
سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرز کو نجی اسپتالوں میں پریکٹس سے فوری روکا جائے۔
جو ڈاکٹرز سرکاری اوقات میں پرائیویٹ اسپتالوں میں کام کرتے پائے جائیں، انہیں نوکری سے برطرف کیا جائے۔
نجی اسپتالوں کی ریگولرائزیشن، ٹیکس اور معیار پر سخت نگرانی کی جائے۔
ہولی فیملی اسپتال میں مکمل انکوائری کر کے ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
وزیر صحت یا ضلعی انتظامیہ کا تاحال کوئی ردعمل نہیں
اس سنگین صورت حال کے باوجود تاحال وزیر صحت پنجاب یا ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان یا کارروائی سامنے نہیں آئی، جس نے عوام میں مزید مایوسی پیدا کر دی ہے۔ اگر حکام نے جلد اس معاملے کا نوٹس نہ لیا تو خدشہ ہے کہ یہ غفلت جان لیوا سانحات میں بدل سکتی ہے۔