
بھارت: بی جے پی حکومت کا ’حلال مصنوعات‘ کے خلاف کارروائی
حلال سرٹیفیکیشن کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم، جو ان کے بقول، ملک بھر میں تقریباً 25,000 کروڑ روپے بنتی ہے، ''دہشت گردی، لو جہاد، اور مذہبی تبدیلیوں‘‘ کے لیے غلط طور پر استعمال ہو رہی ہے۔
انہوں نے ریاست بھر میں حلال سرٹیفائیڈ مصنوعات پر پابندی کو جائز قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حلال سرٹیفیکیشن کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم، جو ان کے بقول، ملک بھر میں تقریباً 25,000 کروڑ روپے بنتی ہے، ”دہشت گردی، لو جہاد، اور مذہبی تبدیلیوں‘‘ کے لیے غلط طور پر استعمال ہو رہی ہے۔
گورکھپور میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی صد سالہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، آدتیہ ناتھ نے دعویٰ کیا کہ بھارت میں حلال سرٹیفیکیشن ایک ”غیر مجاز مالیاتی نیٹ ورک‘‘ کے طور پر کام کر رہا ہے، جسے مرکزی یا ریاستی حکومتوں کی طرف سے کوئی منظوری حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ سرٹیفیکیشن ان سرگرمیوں کی مالی معاونت کا ذریعہ ہے جو مبینہ طور پر ’’قومی سلامتی اور سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرہ‘‘ ہیں۔
انہوں نے کہا، ”جب آپ کچھ خریدیں تو یہ ضرور دیکھیں کہ اس پر حلال سرٹیفیکیشن ہے یا نہیں۔ ہم نے اتر پردیش میں اس پر پابندی لگا دی ہے۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ صابن، کپڑے اور ماچس بھی حلال سرٹیفائیڈ ہیں۔‘‘

تاجروں اور صارفین کو وارننگ
یوگی آدتیہ ناتھ نے تاجروں اور صارفین کو خبردار کیا کہ وہ حلال سرٹیفائیڈ اشیاء کی خرید و فروخت بند کریں، اور اعلان کیا، ”ہم نے اتر پردیش میں اس پر پابندی لگا دی ہے۔ اب کوئی ایسی مصنوعات خریدنے یا بیچنے کی جرات نہیں کرے گا۔‘‘
آدتیہ ناتھ نے کہا کہ ملک میں حلال سرٹیفیکیشن کے نام پر 25,000 کروڑ روپے کی خطیر رقم، بغیر مرکز یا کسی ریاستی حکومت کی اجازت کے، جمع کی گئی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ، ”یہ سارا پیسہ دہشت گردی، لو جہاد، اور مذہبی تبدیلیوں کے لیے غلط استعمال ہو رہا ہے۔ اسی لیے اتر پردیش حکومت نے اس کے خلاف ایک بڑی مہم شروع کی ہے۔‘‘

حزب اختلاف کا ردعمل
حزب اختلاف کے رہنماؤں نے یوگی آدیتہ ناتھ کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے اور معاشی و روزگار کے اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
ان رہنماؤں نے یوگی کے بیانات کو اشتعال انگیز بھی قرار دیا، اور کہا کہ یہ بھارت میں اکثریتی طبقے کی سیاست اور مذہبی تفریق کے خطرناک رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔
اتر پردیش کانگریس کے صدر اجے رائے نے کہا، ”جب ریاستی حکومت پہلے ہی ایسی مصنوعات پر پابندی لگا چکی ہے، تو وزیر اعلیٰ اس پر بیانات کیوں دے رہے ہیں؟ اصل مقصد بہار کے انتخابات ہیں۔ بی جے پی نے یوگی جی کو سماج کو سیاسی فائدے کے لیے تقسیم کرنے کا کام دیا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ یوپی حکومت نوجوانوں کو روزگار دینے کے لیے کیا کر رہی ہے، ریاست میں کتنی سرمایہ کاری آ رہی ہے۔ یہ ہیں یوپی کے اصل سوالات۔ ہمارے وزیر اعلیٰ ایسے بیانات دے کر توجہ ہٹا رہے ہیں۔‘‘
سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمان جاوید علی خان نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سیاسی مقاصد کے لیے ایک پرانے معاملے کو دوبارہ زندہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، ”حلال سرٹیفائیڈ خوراک کی تیاری، ذخیرہ، تقسیم اور فروخت پر پابندی کا فیصلہ تقریباً دو سال پہلے یوپی حکومت نے لیا تھا۔ وزیر اعلیٰ اس معاملے کو دوبارہ سیاسی فائدے کے لیے سامنے لا رہے ہیں اور ہندو-مسلم تفریق پیدا کر رہے ہیں۔ اب اس معاملے کو اٹھانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔‘‘
کئی افراد نے حلال مصنوعات پر پابندی کی قانونی حیثیت اور آئینی جواز پر بھی سوال اٹھایا، کیونکہ یہ براہ راست مسلم تاجروں اور صارفین کو متاثر کرتی ہے اور اسے حکمرانی اور سلامتی کے نام پر ادارہ جاتی تفریق کی ایک اور مثال قرار دیا۔

حلال سرٹیفیکیشن کیا ہے؟
حلال سرٹیفائیڈ مصنوعات وہ اشیاء یا خدمات ہوتی ہیں جو اسلامی قوانین کے مطابق ہوں اور مسلمانوں کے لیے قابلِ استعمال ہوں۔
بھارت میں حلال سرٹیفیکیشن تیسرے فریق کی تنظیموں کے ذریعے کی جاتی ہے، لیکن یہ سرٹیفیکیشن لازمی نہیں ہے۔
وزیر اعلیٰ کے حالیہ بیانات نے ریاست کی جانب سے حلال سرٹیفائیڈ خوراک پر پابندی کے پرانے فیصلے پر دوبارہ بحث چھیڑ دی ہے۔
نومبر 2023 میں، اتر پردیش کے فوڈ سیفٹی اور ڈرگ ایڈمنسٹریشن کمشنر کے دفتر نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں ”ریاست میں حلال سرٹیفائیڈ خوراک کی تیاری، ذخیرہ، فروخت اور تقسیم پر پابندی‘‘ عائد کی گئی، جبکہ برآمدی مصنوعات کو استثنیٰ دیا گیا۔
یہ نوٹیفکیشن فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈز ایکٹ 2006 کے تحت جاری کیا گیا، جس کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی درخواستیں زیر التوا ہیں۔
حلال سرٹیفیکیشن جاری کرنے والے اداروں میں سے ایک جمعیت علماء ہند حلال ٹرسٹ کا مؤقف ہے کہ حلال صرف خوراک کا معاملہ نہیں بلکہ ایک کمیونٹی کے طرزِ زندگی اور مذہبی عمل کا بنیادی حصہ ہے، جو بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 اور 26 کے تحت آتا ہے۔
یہ آرٹیکلز مذہب کی آزادی اور مذہبی امور کو خود منظم کرنے کا حق فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، حلال سرٹیفیکیشن بین الاقوامی تجارت اور کاروبار میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ٹرسٹ نے یوگی ادیتہ ناتھ کے اس دعویٰ کو بھی مسترد کردیا کہ حلال سرٹیفائیڈ ایجنسیاں ”لاکھوں کروڑوں‘‘ کا منافع کماتی ہیں، اور کہا کہ یہ دعوے ’’بے بنیاد‘‘ ہیں۔



