
رپورٹ: ایجنسیاں
پشاور: خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں ہفتے کی شب محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ایک تھانے میں اچانک زوردار دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں ایک اہلکار شہید اور دو اہلکار زخمی ہو گئے۔ ابتدائی طور پر حکام کا کہنا ہے کہ دھماکہ پولیس اسٹیشن کے اسلحہ خانے میں موجود پرانے بارودی مواد کے پھٹنے کے باعث پیش آیا، تاہم حتمی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔
واقعے کی تفصیلات
پولیس ذرائع کے مطابق دھماکہ رات گئے پشاور کے ایک حساس علاقے میں قائم سی ٹی ڈی تھانے کے اندر ہوا۔ بتایا گیا ہے کہ تھانے کے اسلحہ خانے میں رکھا گیا پرانا دھماکا خیز مواد اچانک پھٹ گیا جس سے عمارت کا ایک حصہ متاثر ہوا۔ دھماکے کے بعد شدید آگ بھڑک اٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے اردگرد کے کمروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کے فوراً بعد پورے علاقے میں دھوئیں کے بادل چھا گئے اور متعدد چھوٹے دھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئیں، جن کے بارے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ وہاں موجود گولہ بارود کے پھٹنے سے ہوئے۔ قریبی آبادی میں خوف و ہراس پھیل گیا اور لوگ گھروں سے باہر نکل آئے۔
ریسکیو اور سکیورٹی کارروائیاں
دھماکے کی اطلاع ملتے ہی پولیس، سکیورٹی فورسز، بم ڈسپوزل یونٹ (بی ڈی یو)، ریسکیو 1122 اور فائر بریگیڈ کی ٹیمیں فوری طور پر موقع پر پہنچ گئیں۔ علاقے کو گھیرے میں لے کر عام شہریوں کی آمدورفت بند کر دی گئی۔
ریسکیو اہلکاروں نے کئی گھنٹے کی جدوجہد کے بعد آگ پر قابو پایا، جبکہ بی ڈی یو نے جائے وقوعہ کا معائنہ کر کے کسی مزید خطرناک مواد کی موجودگی کا جائزہ لیا۔ خوش قسمتی سے تمام قیدیوں اور دیگر اہلکاروں کو بحفاظت باہر نکال لیا گیا۔
پولیس حکام کا مؤقف
سی سی پی او پشاور میاں سعید نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ ابتدائی تجزیے کے مطابق یہ واقعہ دہشت گردی کا نہیں بلکہ حادثاتی نوعیت کا معلوم ہوتا ہے۔ ان کے مطابق "پرانے دھماکا خیز مواد کے اچانک پھٹنے سے دھماکہ ہوا، امکان ہے کہ کسی شارٹ سرکٹ یا حرارت کے باعث بارودی مواد متاثر ہوا ہو۔”
انہوں نے تصدیق کی کہ دھماکے میں ایک سی ٹی ڈی اہلکار موقع پر ہی شہید ہو گیا جبکہ دو زخمیوں کو فوری طور پر لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ان کا علاج جاری ہے۔
تحقیقات کے احکامات اور حفاظتی اقدامات
پولیس حکام نے بتایا کہ دھماکے کی مکمل تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، جو یہ تعین کرے گی کہ آیا دھماکہ حادثاتی تھا یا کسی انتظامی غفلت کے باعث پیش آیا۔ کمیٹی کو یہ بھی ہدایت دی گئی ہے کہ صوبے بھر میں موجود پولیس اسٹیشنوں اور اسلحہ خانوں میں رکھے پرانے یا ضبط شدہ دھماکا خیز مواد کی فہرست مرتب کی جائے اور ان کی محفوظ تلفی کو یقینی بنایا جائے۔
ذرائع کے مطابق حکام نے اسلحہ خانوں کے حفاظتی نظام کا از سرِ نو جائزہ لینے اور آگ بجھانے کے جدید آلات نصب کرنے کے احکامات بھی جاری کیے ہیں تاکہ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچا جا سکے۔
پس منظر
یہ پہلا موقع نہیں کہ پشاور میں پولیس تنصیبات کے اندر دھماکے ہوئے ہوں۔ اس سے قبل بھی مختلف تھانوں میں ضبط شدہ بارودی مواد کے پھٹنے کے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں، تاہم اس بار کے دھماکے نے سکیورٹی اور حفاظتی انتظامات پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پرانے دھماکا خیز مواد کو غیر محفوظ طریقے سے ذخیرہ کرنا ہمیشہ خطرناک ثابت ہوتا ہے اور اس کے لیے خصوصی حفاظتی پروٹوکول کی ضرورت ہوتی ہے۔
عوامی ردِعمل
پشاور کے شہریوں اور سماجی تنظیموں نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے شہید اہلکار کے اہل خانہ سے تعزیت کی ہے۔ شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس تنصیبات میں جدید حفاظتی نظام نصب کیا جائے اور بارودی مواد کے ذخیرہ اور تلفی کے عمل کو سائنسی بنیادوں پر منظم کیا جائے۔
تحقیقات جاری
ذرائع کے مطابق جائے وقوعہ کو کلیئر قرار دینے کے بعد علاقے میں معمول کی سرگرمیاں بحال کر دی گئی ہیں، تاہم تفتیشی ٹیمیں جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کر رہی ہیں تاکہ دھماکے کی وجوہات کا حتمی تعین کیا جا سکے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی رپورٹ جلد صوبائی حکومت کو پیش کر دی جائے گی۔
واقعے کے بعد پشاور اور اس کے مضافاتی علاقوں میں سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے اور تمام حساس اداروں کو الرٹ رہنے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔



