پاکستاناہم خبریں

افغانستان کے حوالے سے پالیسی پر سیاسی و عسکری قیادت میں مکمل اتفاق رائے ہے‘وزیر دفاع خواجہ آصف

ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ غیر نمائندہ افغان طالبان رجیم گہری اندرونی دھڑے بندی کا شکار ہے۔

اسلام آباد: پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے افغان سرزمین سے ممکنہ دہشت گرد کارروائیوں کے حوالے سے ملک کی پالیسی واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کسی بھی صورت میں اپنے عوام کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کو برداشت نہیں کرے گا اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔

خواجہ آصف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (X) پر اپنے بیان میں افغان ترجمان کے حالیہ موقف کو ’’بدنیتی پر مبنی‘‘ اور ’’گمراہ کن‘‘ قرار دیا۔ وزیر دفاع کے مطابق ایسے بیانات زمینی حقائق سے انحراف اور علاقائی امن کے لیے نقصان دہ ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی پر سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان مکمل اتفاقِ رائے موجود ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستانی عوام، خاص طور پر خیبر پختونخوا کے لوگ، افغان طالبان حکومت کی جانب سے بھارت کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغان حکومت کے طرزِ عمل یا نیت کے بارے میں اب کسی قسم کا وہم باقی نہیں رہا۔

خواجہ آصف نے افغان طالبان حکومت کی قیادت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ غیر نمائندہ افغان طالبان رجیم گہری اندرونی دھڑے بندی کا شکار ہے۔ یہی حکومت افغان عوام بالخصوص خواتین، بچوں اور اقلیتوں پر مسلسل جبر کی ذمہ دار ہے جبکہ اظہارِ رائے، تعلیم اور سیاسی نمائندگی کے بنیادی حقوق کو سلب کر رہی ہے۔‘‘

وزیر دفاع نے مزید بتایا کہ طالبان حکومت چار سال سے اقتدار میں ہے، مگر وہ بین الاقوامی برادری سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ ان کے مطابق افغان طالبان اپنی کمزور حکمرانی اور داخلی انتشار کو چھپانے کے لیے ’’بیان بازی‘‘ اور ’’بیرونی عناصر کے لیے پراکسی کے طور پر کام‘‘ کرنے کا سہارا لے رہے ہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کی پالیسی واضح اور غیر متزلزل ہے: ’’ہم اپنے شہریوں کو سرحد پار دہشت گردی اور خوارج کے گمراہ کن نظریے سے بچانے کے لیے متحد ہیں۔ ہمارا مقصد صرف قومی مفاد کا تحفظ نہیں بلکہ خطے میں دیرپا امن و استحکام کا قیام بھی ہے۔‘‘

یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب حال ہی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا ایک دور مکمل ہوا تھا، جس میں فریقین نے جنگ بندی جاری رکھنے اور آئندہ مذاکرات 6 نومبر کو منعقد کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان سرحدی سکیورٹی، ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں اور دہشت گردی کے واقعات پر کشیدگی بدستور موجود ہے۔

خواجہ آصف کے بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان کی جانب سے افغان حکومت کے ساتھ تعلقات میں سختی آ رہی ہے، خاص طور پر اس پس منظر میں جب ٹی ٹی پی کے حالیہ حملوں کی ذمہ داری افغان سرزمین سے سرگرم عناصر پر عائد کی جا رہی ہے۔

وزیر دفاع نے زور دیا کہ پاکستان کسی بھی بیرونی دباؤ یا سیاسی مفاد کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اپنے عوام کے امن و سلامتی کو ترجیح دے گا۔ ان کے بقول: ’’ہماری پالیسی قومی اتفاقِ رائے اور عسکری قیادت کے مکمل اشتراک سے طے کی گئی ہے، جس کا مقصد دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ایک پرامن اور مستحکم خطے کا قیام ہے۔‘‘

یہ موقف پاکستانی حکومت کی افغان طالبان کے حوالے سے سخت حکمت عملی کو واضح کرتا ہے اور خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کی غیر متزلزل عزم کو مزید تقویت دیتا ہے۔

 

وزیر دفاع نے مزید کہا کہ چار سالہ اقتدار میں رہنے کے بعد بھی افغان طالبان کی حکومت بین الاقوامی برادری سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

’اب بیان بازی کے ذریعے اور بیرونی عناصر کے لیے پراکسی کے طور پر کام کر کے اپنی ہم آہنگی، استحکام اور حکمرانی کی صلاحیت کی کمی کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

خواجہ آصف نے واضح کیا کہ پاکستان کی پالیسی اپنے شہریوں کو سرحد پار دہشت گردی اور خوارج کے گمراہ کن نظریے سے بچانے کے لیے متحد، غیر متزلزل اور قومی مفاد کے ساتھ ساتھ علاقائی امن و استحکام کے حصول کے لیے بھی ہے۔‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button