کاروبار

پاکستان بھر میں مہنگائی کا طوفان برقرار، عوام سرکاری نرخوں کے باوجود دگنا بوجھ برداشت کرنے پر مجبور

شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مہنگائی پر قابو پانے کے تمام دعوے صرف اعلانات تک محدود ہیں، جبکہ مارکیٹوں میں کوئی مؤثر چیک اینڈ بیلنس نظام موجود نہیں۔

سید عاطف ندیم-پاکستان وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

ملک بھر میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عوام کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ سرکاری نرخ نامے صرف کاغذوں تک محدود دکھائی دیتے ہیں، جب کہ مارکیٹوں میں مہنگی فروخت کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مہنگائی پر قابو پانے کے تمام دعوے صرف اعلانات تک محدود ہیں، جبکہ مارکیٹوں میں کوئی مؤثر چیک اینڈ بیلنس نظام موجود نہیں۔


پولٹری مصنوعات اور انڈے عام آدمی کی پہنچ سے باہر

ملک کے بڑے شہروں میں برائلر گوشت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
سرکاری نرخ 482 روپے فی کلو مقرر کیے گئے ہیں، تاہم مارکیٹ میں یہی گوشت 503 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہا ہے۔
فارمی انڈوں کی قیمتیں بھی بڑھ کر 344 روپے فی درجن تک پہنچ گئی ہیں، جو کہ گزشتہ ماہ کے مقابلے میں تقریباً 20 روپے اضافہ ظاہر کرتی ہیں۔

پولٹری ایسوسی ایشن کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ فیڈ، ڈیزل اور ٹرانسپورٹ کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے، جبکہ صارفین کا مؤقف ہے کہ "پولٹری مافیا” آزادانہ طور پر ریٹ طے کر رہا ہے اور حکومت کی رِٹ کمزور دکھائی دے رہی ہے۔


سبزیاں اور مصالحہ جات — قیمتوں کا بے لگام اضافہ

سبزیاں، جو کبھی غریب طبقے کی واحد دسترس میں تھیں، اب متوسط طبقے کے لیے بھی ایک عیاشی بنتی جا رہی ہیں۔
مارکیٹ سروے کے مطابق:

  • پیاز (درجہ اول) 200 روپے فی کلو

  • پیاز (درجہ دوم) 180 روپے فی کلو

  • ٹماٹر 140 روپے فی کلو

  • آلو 120 روپے فی کلو

  • ادرک 600 روپے فی کلو

  • لہسن 500 روپے فی کلو

  • شملہ مرچ 350 روپے فی کلو

  • بھنڈی 150 روپے فی کلو

  • سبز مرچ 140 روپے فی کلو

  • پھول گوبھی 60 روپے فی کلو

  • ساگ اور پالک 50 روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہیں۔

سبزی فروشوں کا کہنا ہے کہ پٹرول کی قیمت، منڈی کے کرایے اور مزدوری کے بڑھنے سے لاگت میں اضافہ ہوا ہے، جب کہ شہریوں کا مؤقف ہے کہ "بیچ میں موجود دلال اور مڈل مین” مصنوعی مہنگائی پیدا کر رہے ہیں۔


پھلوں کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ

پھلوں کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔
سیب 400 روپے، کیلا 220 روپے، انار 500 روپے، مالٹا 300 روپے اور انگور 450 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہے ہیں۔
خریداروں کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کی ٹیمیں مارکیٹوں میں کبھی کبھار چھاپے مارتی ہیں، لیکن ان کے جانے کے چند گھنٹے بعد ہی پرانی قیمتیں بحال ہو جاتی ہیں۔


شہریوں کا ردعمل — “چیکنگ صرف تصویروں تک محدود ہے”

لاہور کی رہائشی سمیرا خان نے کہا کہ "ضلعی حکومت کے نمائندے صرف میڈیا کے کیمروں کے سامنے کارروائیاں کرتے ہیں، لیکن عام دنوں میں کسی کو کوئی پروا نہیں۔”
اسلام آباد کے شہری کامران علی نے شکوہ کیا کہ "روزانہ نئے ریٹ لگتے ہیں، مگر دکاندار اپنی مرضی چلاتے ہیں۔ سرکاری نرخ نامہ صرف دیوار پر لگانے کی رسم بن چکا ہے۔”


ماہرینِ معیشت کی رائے — “مہنگائی انتظامی ناکامی کی عکاس”

ماہرِ معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن کے مطابق، موجودہ صورتحال "سپر انفلیشن” کی ابتدائی علامات ظاہر کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا:

“سرکاری اعلانات اور اصل مارکیٹ ریٹ میں 20 سے 40 فیصد تک فرق ہے، جو حکومتی کنٹرول کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر انتظامیہ نے قیمتوں پر سختی سے عمل درآمد نہ کرایا تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔”


حکومت کا موقف — “مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اقدامات جاری”

پنجاب اور سندھ کی ضلعی انتظامیہ نے مہنگائی کے خلاف کریک ڈاؤن کا عندیہ دیا ہے۔
ترجمان پنجاب حکومت کے مطابق:

“ضلعی پرائس کنٹرول کمیٹیاں متحرک کی جا چکی ہیں، ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی، اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ہفتہ وار بازاروں کو فعال کیا جا رہا ہے۔”

تاہم عوامی سطح پر ان اقدامات کے نتائج تاحال واضح نہیں، اور بیشتر شہری سمجھتے ہیں کہ حقیقی ریلیف صرف تب ممکن ہے جب سرکاری ریٹ پر حقیقی عمل درآمد ہو۔


تجزیہ

ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اثرات معاشی دباؤ، غربت میں اضافہ، اور عوامی بےچینی کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔ اگر حکومت نے فوری طور پر قیمتوں پر نگرانی کے مؤثر نظام نہ بنایا، تو نہ صرف عام آدمی کی قوتِ خرید متاثر ہوگی بلکہ سیاسی دباؤ بھی بڑھ سکتا ہے۔


نتیجہ:
مہنگائی کے خلاف حکومتی اقدامات اس وقت تک بے اثر رہیں گے جب تک مارکیٹ مافیا، مڈل مین اور انتظامی غفلت کے خلاف عملی کارروائی نہیں کی جاتی۔
عوام اب صرف اعلانات نہیں بلکہ عملی ریلیف کے منتظر ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button