
کاربن مارکیٹ میں ناکامی،۔۔۔پاکستانی معشیت کا المیہ۔۔!!پیر مشتاق رضوی
گلوبل گرین گروتھ انسٹیٹیوٹ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو ممالک کو گرین گروتھ اور کاربن مارکیٹ کے حوالے سے مدد فراہم کرتا ہے
کاربن مارکیٹ ایک ایسا عالمی معاشی نظام ہے جہاں کاربن ڈائی اکسائیڈ (CO2) کے اخراج کے حقوق خریدے اور فروخت کیے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد گیسز خصوصا”گرین ہاؤس گیسز (GHGs) جیسے کہ کاربن ڈائی اکسائیڈ (CO2)، میتھین (CH4)، نائٹرس اکسائیڈ (N2O) وغیرہ کی مقدار میں کمی لانا ہےکاربن مارکیٹ سے گیسز کی مقدر میں کمی لانا ہے گیسز کی مقدار کو کم کرنے کے لیۓ حکومت یا بین الاقوامی ادارے ایک حد مقرر کرتے ہیں کہ کتنی مقدار میں گیسز خارج کی جا سکتی ہیں۔ اس حد کے مطابق، کمپنیوں کو گیسز کے اخراج کے لیے پیمٹس (کاربن کریڈٹس) خریدنے پڑتے ہیں۔ اگر کوئی کمپنی اپنی حد سے زیادہ گیسز خارج کرتی ہے، تو وہ دوسری کمپنیوں سے پیمٹس خرید سکتی ہے جنہوں نے اپنی حد سے کم گیسز خارج کی ہیں۔ اس طرح، گیسز کی مقدار کو کم کرنے کے لیے اقتصادی ترغیب دی جاتی ہے۔جب کاربن مارکیٹ کی بات آتی ہے تو کچھ اہم عالمی معاہدے ہیں جو قابل ذکر ہیں:پیرس معاہدہ 2015ء میں ہوا تھا اور اس کا مقصد گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنا ہے۔ اس معاہدے کے تحت، ممالک اپنے اخراج کو کم کرنے کے لیے کاربن کریڈٹس کی تجارت کر سکتے ہیں۔کیوٹو پروٹوکول معاہدہ 1997ء میں ہوا تھا اور اس کا مقصد بھی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنا تھا۔ اس معاہدے کے تحت، ممالک اپنے اخراج کو کم کرنے کے لیے کاربن کریڈٹس کی تجارت کر سکتے تھے۔گلوبل گرین گروتھ انسٹیٹیوٹ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو ممالک کو گرین گروتھ اور کاربن مارکیٹ کے حوالے سے مدد فراہم کرتا ہے۔اقوام متحدہ کی کاربن مارکیٹ بھی ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو ممالک کو کاربن کریڈٹس کی تجارت میں مدد فراہم کرتا ہے پاکستان کی وزارت ماحولیاتی تبدیلی نے 2024ء ءمیں کاربن مارکیٹ پالیسی کا اعلان کیا، جس کا مقصد سبز سرمایہ کاری کو راغب کرنا اور ماحولیاتی اہداف کے حصول کے لیے ماحول دوست اقدامات میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔پاکستان سمیت دیگر ممالک کاربن مارکیٹ میں زر مبادلہ کما رہے ہیں۔ پاکستان کی کاربن مارکیٹ پالیسی 2024ء کے تحت، ملک کو کاربن کریڈٹس کی فروخت سے سالانہ 4 ارب ڈالر تک کمانے کی امید ہے۔ اس پالیسی کے تحت، پاکستان اپنے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو 2030 تک 50% تک کم کرنے کا ہدف رکھتا ہے پاکستان کے پاس بلیو کاربن کے اہم ذخائر ہیں، خاص طور پر انڈس ڈیلٹا میں مینگروو جنگلات کی شکل میں۔ یہ جنگلات کاربن ڈائی اکسائیڈ کو جذب کرنے میں مدد کرتے ہیں اور ساحلی تحفظ میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔پاکستان بلیو کاربن سے زرمبادلہ کمانے کے لیے کئی اقدامات کر سکتا ہے۔بلیو کاربن سے زرمبادلہ کمانے کے لئےکاربن کریڈٹس کی فروخت کیے جاسکتے ہیں اس سلسلے پاکستان اپنے بلیو کاربن ایکو سسٹم سے کاربن کریڈٹس حاصل کر کے عالمی مارکیٹ میں فروخت کر سکتا ہے۔ یہ کریڈٹس ان کمپنیوں کوفروخت کیے جاتے ہیں جو اپنے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنا چاہتی ہیں۔بلیو کاربن ایکو سسٹم ساحلی تحفظ میں بھی مدد کرتے ہیں، جس سے ساحلی کمیونٹیوں کو فائدہ ہوتا ہے اور زرمبادلہ کمانے کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ایکو ٹورز اور بلیو کاربن ایکو سسٹم کی حفاظت اور ترقی سے ایکو ٹورزم کو بھی فروغ مل سکتا ہے، جس سے محلی کمیونٹیوں کو روزگار کے مواقع ملتے ہیں اور زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے لیکن ہمارا یہ قومی المیہ ہے کہ پاکستان کو کاربن مارکیٹ کے قیام میں ناکامی سے سالانہ 2.25 ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا کرناپڑ رہا ہے پاکستان گزشتہ ایک دہائی سے کاربن مارکیٹ قائم کرنے میں ناکام رہا ہے ، جس کی وجہ ناقص گورننس اور بین الاقوامی امداد پر انحصار ہے، جس سے ملک کو سالانہ 2.25 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے جبکہ عالمی کاربن مارکیٹ، جس کی مالیت 2023ء میں 130 ارب ڈالر تھی اور 2030ء تک 576 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے، ماحولیاتی اور معاشی فوائد فراہم کرتی ہے، مگر پاکستان اپنی صلاحیت کے باوجود پیچھے رہ گیا ہے۔ ملک اپنی 1,046 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی پر موجود مینگروو جنگلات سے بلیو کاربن کے ذریعے 500 ملین ڈالر، 30.5 ملین ہیکٹر زرعی زمین پر ایگرو فاریسٹری سے 1 ارب ڈالر، اور دیہی علاقوں میں کاربن اخراج کا بڑا سبب بننے والے بائیو ماس کی جگہ سولر اسٹووز سے 750 ملین ڈالر کما سکتا ہے۔وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی کی جانب سے 2024ء میں جاری کردہ "کاربن مارکیٹ پالیسی گائیڈ لائنز” کے باوجود عملدرآمد سست ہے، جس کی وجوہات گورننس کے مسائل، بدعنوانی اور شفافیت کی کمی ہیں۔ پیرس معاہدہ (جسے پاکستان نے 2016ء میں منظور کیا) کاربن کریڈٹ فریم ورک کا تقاضا کرتا ہے، مگر پیش رفت مبہم رہنمائی اصولوں تک محدود ہے، جن میں واضح ٹائم لائنز یا وسائل کا ذکر نہیں۔ لیکن ایک خوش آئند اقدام یہ ہے کہ سندھ حکومت کا بلیو ڈیلٹا کاربن پراجیکٹ، جس نے 30 لاکھ ٹن کاربن کریڈٹس فروخت کر کے 40 ملین ڈالر کمائے، صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے مگر شفافیت پر سوالات بھی اٹھاتا ہے، کیونکہ حکومت کے 40 فیصد حصص کی آمدنی کا کوئی حساب نہیں دیا گیا۔ چھ مزید پراجیکٹس منظوری کے منتظر ہیں، مگر مناسب کاربن مارکیٹ فریم ورک کی عدم موجودگی ترقی میں رکاوٹ ہے۔رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر بھارت، چین، بنگلہ دیش اور ویتنام کاربن مارکیٹس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، جبکہ حکومت پاکستان روایتی بیوروکریسی، نااھل سیاسی قیادت اور کاروباری برادری قلیل مدتی مفادات اور پیرس معاہدے کی شفافیت کے تقاضوں سے خوف کی وجہ سے اس سلسلے دلچسپی نہیں دکھا رہی۔ایک رپورٹ کے مطابق فعال کاربن رجسٹری، مانیٹرنگ سسٹمز اور صوبائی-وفاقی رابطہ کاری کی کمی مزید تاخیر کا باعث بن رہی ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ پاکستان کی کاربن مارکیٹ کو پختہ ہونے میں مزید ایک دہائی لگ سکتی ہے، جس سے ماحولیاتی اہداف کے لیے غیر ملکی امداد پر انحصار جاری رہ سکتا ہے، کیونکہ اس کی تیسری قومی تعین شدہ شراکت (NDCs) کا 85 فیصد حصہ ایسی فنڈنگ پر منحصر ہے۔پاکستان کاربن مارکیٹ سے اربوں ڈالرز کا زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ یہ رقم کاربن کریڈٹس کی فروخت سے حاصل ہوسکتی ہی، جو پاکستان کے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنے کے لیے عالمی مارکیٹ میں فروخت کیے جائیں کاربن مارکیٹ سے زرمبادلہ کمانے کے لیے عملی اقدامات کئے جائیں پاکستان اپنے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنے کے لیے کاربن کریڈٹس فروخت کر سکتا ہے۔پاکستان گرین انیشیٹوز کے ذریعے اپنی زمین کو زراعت کے لیے استعمال کر سکتا ہے اور کاربن کریڈٹس حاصل کر سکتا ہے۔پاکستان بلیو اکانومی کے ذریعے اپنے ساحلی پٹی کا استعمال کر کے زرمبادلہ کما سکتا ہے کاربن مارکیٹ قومی معشیت کا ایک اہم ستون ہے جس سے پاکستان کی معشیت کو ایک بڑی سپورٹ مل سکتی ہے اور پاکستان معاشی ترقی اور قومی خوشحالی میں بھی مدد مل سکتی ہے اس سلسلے پاکستان کےارباب اختیار کو کاربن مارکیٹ کو فروغ دینے میں سنجیدگی سے غورخوض کرنے کی اشد ضرورت ہے اور کاربن مارکیٹ کے حوالے سے قومی پالیسی تشکیل دی جائے


