پاکستاناہم خبریں

1971 کی جنگ: مکتی باہنی کی سرگرمیاں اور مشرقی پاکستان میں بھارتی کردار—ایک تحقیقی جائزہ

پاکستانی حکام اور بعض محققین کے مطابق بھارت نے اس عرصے میں مشرقی پاکستان کے اندر سیاسی بے چینی کو بڑھانے کے لیے مخصوص گروہوں کو مدد فراہم کی۔

سید عاطف ندیم.پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

1971 کے سیاسی بحران اور خانہ جنگی نے برصغیر کی تاریخ میں ایک سنگین موڑ پیدا کیا، جس کے نتیجے میں پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ اس دور کے واقعات میں مکتی باہنی کی مسلح کارروائیوں اور بھارت کے ممکنہ کردار پر آج بھی متعدد تحقیقی سوالات موجود ہیں۔ مختلف پاکستانی اور بین الاقوامی ماخذات کے مطابق اس عرصے میں بھارت کی سیاسی و عسکری حکمت عملی، مکتی باہنی کی تشکیل اور پاکستان کے اندرونی معاملات پر اس کے اثرات ایک طویل عرصے سے تحقیق و بحث کا حصہ رہے ہیں۔

1965 کے بعد خطے کی سیاسی کشیدگی

1965 کی جنگ کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات مسلسل کشیدگی کا شکار رہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تناؤ کے ساتھ ساتھ خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پاکستانی حکام اور بعض محققین کے مطابق بھارت نے اس عرصے میں مشرقی پاکستان کے اندر سیاسی بے چینی کو بڑھانے کے لیے مخصوص گروہوں کو مدد فراہم کی۔

مکتی باہنی کی تشکیل اور گوریلا کارروائیاں

1971 کے بحران کے ابتدائی مراحل میں مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسند عناصر کے ایک بڑے حصے نے ’’مکتی باہنی‘‘ کے نام سے منظم گوریلا کارروائیاں شروع کیں۔ پاکستان کے سرکاری مؤقف کے مطابق مکتی باہنی کو اسلحہ، تربیت اور لوجسٹک معاونت بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ذریعے فراہم کی جاتی رہی۔ متعدد تاریخی رپورٹس بتاتی ہیں کہ مکتی باہنی کے یونٹوں نے مختلف علاقوں میں سرکاری تنصیبات، پل، مواصلاتی نظام اور فوجی قافلوں کو نشانہ بنایا۔

پاکستانی حکام کے بقول ان کارروائیوں کے نتیجے میں نہ صرف فوجی اہلکار بلکہ بڑی تعداد میں عام شہری بھی ہلاک ہوئے۔ اس دور کے گواہوں کا کہنا ہے کہ مکتی باہنی کے بعض گروپوں نے مشرقی پاکستان میں رہنے والی غیر بنگالی آبادی اور ریاست کے حامی بنگالیوں کو بھی نشانہ بنایا، جس سے اندرونی بدامنی مزید شدت اختیار کر گئی۔

بھارتی معاونت کے الزامات اور علاقائی اثرات

مختلف عسکری و سفارتی رپورٹس میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بھارتی فوج کے بعض افسران سول کپڑوں میں مکتی باہنی کے یونٹوں کے ساتھ کارروائیوں میں شریک رہتے تھے۔ علاوہ ازیں بھارتی میڈیا اور سرکاری بیانات میں اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ بھارت نے مکتی باہنی کے جنگجوؤں کو تربیت اور اسلحہ فراہم کیا تھا۔ اس معاونت کا بنیادی مقصد مشرقی پاکستان میں پاکستان آرمی کی پوزیشن کمزور کرنا بتایا جاتا ہے۔

اس عرصے میں مکتی باہنی کے کچھ گروپوں نے سمندری راستوں پر بھی حملے کیے، اور تاریخی رپورٹس کے مطابق تقریباً 600 گوریلا اہلکاروں کو مختلف بندرگاہوں پر کارروائیاں کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

بھارتی کنٹرول ہیڈکوارٹرز اور ٹریننگ پروگرام

پاکستانی دستاویزات کے مطابق مکتی باہنی کی عسکری منصوبہ بندی کے لیے بھارت کی ایسٹرن کمانڈ نے کولکتہ میں ایک خصوصی ’’کنٹرول ہیڈ کوارٹر‘‘ قائم کیا، جس کی نگرانی رمیشورناتھ کاؤ کے سپرد کی گئی—جو بعد ازاں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے بانیوں میں شمار کیے گئے۔

اسی مرکزی سیٹ اپ کے تحت مکتی باہنی کے جنگجوؤں کی تربیت کے لیے بھارت میں چھ بڑی ٹریننگ تنصیبات قائم کی گئیں، ہر ایک بھارتی بریگیڈیئر کے زیرِ کمان کام کرتا تھا:

مکتی باہنی کے ٹریننگ مراکز

  1. مورتی کیمپ – مغربی بنگال
    کمانڈر: بریگیڈیئر جوشی

  2. رائے گنج – مغربی بنگال
    کمانڈر: بریگیڈیئر پریم سنگھ

  3. چا کولیا کیمپ – بھارتی ریاست بہار
    کمانڈر: بریگیڈیئر این اے نائیک

  4. دیب تمور – تریپورہ (Tripura)
    کمانڈر: بریگیڈیئر شاہ بیگ سنگھ

  5. ماسی پور – آسام
    کمانڈر: بریگیڈیئر بی واڈیا

پاکستانی سرکاری بیانات کے مطابق ان چھ مراکز میں مجموعی طور پر تقریباً ایک لاکھ مکتی باہنی جنگجوؤں کو ٹریننگ فراہم کی گئی، جبکہ 800 مکتی باہنی افسران کو انڈین ملٹری اکیڈمی دہرہ دون میں باضابطہ فوجی تربیت دی گئی۔

بندرگاہوں پر حملوں کے لیے مخصوص ٹیمیں

مزید یہ دعویٰ بھی سامنے آتا ہے کہ بھارت نے مکتی باہنی کے تقریباً 600 تربیت یافتہ گوریلا اہلکاروں کو خصوصی طور پر مشرقی پاکستان کی بندرگاہوں اور سمندری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی ذمہ داری دی۔ ان کارروائیوں کا مقصد پاکستان کے مواصلاتی اور عسکری ڈھانچے کو کمزور کرنا تھا۔

بھارتی افسران کی خفیہ شرکت

پاکستانی مؤقف کے مطابق بھارتی فوج کے حاضر سروس افسران سول کپڑوں میں مکتی باہنی کی کارروائیوں میں شریک ہوتے، انہیں ہدایات دیتے اور بعض مواقع پر براہ راست آپریشنز کی نگرانی بھی کرتے رہے۔ اس پس منظر کو پاکستان 1971 کے بحران میں بھارت کی ’’براہ راست مداخلت‘‘ قرار دیتا ہے۔

انسانی جانوں کا ضیاع اور مہاجرین کا بحران

1971 کے بحران کے دوران دونوں جانب تشدد کے واقعات نے ہزاروں شہریوں کی جانیں لیں۔ مکتی باہنی کی کارروائیوں، پاکستانی فوجی آپریشنز اور خانہ جنگی کے ماحول نے ایک بڑے انسانی بحران کو جنم دیا جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس صورتحال کو جنوبی ایشیا کی تاریخ کا ایک بڑا انسانی المیہ قرار دیا ہے۔

تاریخی بیانیے آج بھی متنازع

1971 کے واقعات پر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے بیانیوں میں نمایاں اختلافات موجود ہیں۔ پاکستان کے مؤقف کے مطابق بھارت نے مسلح کارروائیوں کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کیا، جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش کے مؤقف میں سیاسی حقوق اور صوبائی محرومیوں کی بنیاد پر عوامی تحریک کا حوالہ دیا جاتا ہے۔
اس دور کی اسپیشل آپریشنز، خفیہ معاونت اور فوجی کارروائیوں پر آج بھی مورخین، محققین اور ماہرینِ عسکریات میں بحث جاری ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button