مشرق وسطیٰاہم خبریں

چین اور بھارت کے درمیان اروناچل پردیش پر پھر تلخ کلامی، شنگھائی ایئرپورٹ پر واقعہ دونوں ممالک کے مابین تنازعہ کا نیا موڑ

چین نے "زنگنان" (جو بھارت کے اروناچل پردیش کا حصہ ہے) کو کبھی بھی بھارت کے زیر انتظام علاقے کے طور پر تسلیم نہیں کیا اور اس کی تعمیرات کو "غیر قانونی" قرار دیتا ہے۔

بیجنگ/نئی دہلی: چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعے اور متنازعہ علاقے اروناچل پردیش کو لے کر ایک بار پھر شدید کشیدگی دیکھنے کو ملی ہے۔ یہ تنازعہ اُس وقت شدت اختیار کر گیا جب چین کے شنگھائی ایئرپورٹ پر حکام نے ایک خاتون کا بھارتی پاسپورٹ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ خاتون نے الزام عائد کیا کہ انہیں "اروناچل پردیش” کے حوالے سے امیگریشن حکام کی جانب سے توہین کا سامنا کرنا پڑا، جس پر بھارت نے سخت احتجاج کیا ہے۔ چین نے اپنے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اروناچل پردیش اس کا علاقہ "زنگنان” ہے اور اس نے کبھی بھی بھارت کے زیر انتظام علاقے کو تسلیم نہیں کیا۔

چین کا موقف: اروناچل پردیش ہمارا حصہ ہے

چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ "چینی حکام نے تمام کارروائی قانون اور ضوابط کے مطابق کی ہے اور متعلقہ شخص کے قانونی حقوق اور مفادات کی مکمل حفاظت کی گئی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ چین نے "زنگنان” (جو بھارت کے اروناچل پردیش کا حصہ ہے) کو کبھی بھی بھارت کے زیر انتظام علاقے کے طور پر تسلیم نہیں کیا اور اس کی تعمیرات کو "غیر قانونی” قرار دیتا ہے۔

ماؤ ننگ نے تصدیق کی کہ اس خاتون کا بھارتی پاسپورٹ صرف اس لیے تسلیم نہیں کیا گیا کیونکہ "اروناچل پردیش چین کا حصہ ہے” اور چین نے اس خطے کے بارے میں بھارت کی دعویداری کو تسلیم نہیں کیا۔

بھارتی وزارت خارجہ کا سخت احتجاج

بھارت نے چین کی جانب سے اس خاتون کے ساتھ پیش آنے والے معاملے پر شدید اعتراض کیا اور اس پر اپنا سخت احتجاج چین کے ساتھ درج کرایا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے اس واقعے کے بعد اپنے بیان میں کہا، "اروناچل پردیش بھارت کا ایک اٹوٹ اور ناقابل تقسیم حصہ ہے، اور یہ ایک سچائی ہے جسے چین کے کسی بھی دعوے سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔” جیسوال نے کہا کہ بھارت نے چین کے حکام کے ساتھ اس معاملے کو سختی سے اٹھایا ہے اور اس بات کو دوہرایا کہ اروناچل پردیش بھارت کا حصہ ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ بھارت کے ایک شہری کے ساتھ ایسا سلوک "غیر مستند” ہے اور چین کا یہ دعویٰ کہ اروناچل پردیش اس کا حصہ ہے، بالکل غلط ہے۔ بھارت نے چین کی جانب سے اس دعوے کو ہمیشہ مسترد کیا ہے، اور چین کو اس کے غلط رویے کا جواب دینا ہوگا۔

واقعہ کی تفصیلات: خاتون کا الزام

واقعہ 21 نومبر 2025 کو پیش آیا جب ایک خاتون جو اروناچل پردیش سے تعلق رکھتی تھیں، بھارتی پاسپورٹ پر جاپان کا سفر کرنے کے لیے شنگھائی ایئرپورٹ پہنچیں۔ خاتون نے الزام عائد کیا کہ چینی حکام نے ان کا بھارتی پاسپورٹ اس بنیاد پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ اروناچل پردیش "چین کا علاقہ” ہے اور انہیں چین کا پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے کہا۔

خاتون نے ایک بھارتی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ "چینی حکام نے کہا کہ چونکہ میری جائے پیدائش اروناچل پردیش ہے، اس لیے میرے پاسپورٹ کو غلط قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ مجھے چینی پاسپورٹ کے لیے درخواست دینی چاہیے۔” خاتون نے مزید کہا کہ جب انہوں نے حکام سے وضاحت طلب کی تو ان سے مذاق کیا گیا اور کہا گیا، "اروناچل بھارت کا حصہ نہیں ہے، آپ کو چینی سمجھا جائے گا اور آپ کو چینی پاسپورٹ کے لیے درخواست دینی چاہیے۔”

چین کا اروناچل پردیش پر دعویٰ

چین کی حکومت اپنے سرکاری نقشوں میں اروناچل پردیش کے 15 مقامات کا نام تبدیل کر چکی ہے اور اس علاقے کو "زنگنان” (جنوبی تبت) قرار دیتی ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ اروناچل پردیش دراصل تبت کا حصہ ہے، اور بھارتی حکومت نے اس پر غیر قانونی قبضہ کیا ہے۔ تاہم، بھارت کا موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ اروناچل پردیش اس کا "اٹوٹ” حصہ ہے اور چین کے اس دعوے کو یکسر مسترد کرتا ہے۔

پہلا تنازعہ: اروناچل پردیش کے نام کی تبدیلی

چین کی جانب سے اروناچل پردیش کے 15 مقامات کے نام تبدیل کرنے کا معاملہ دو برس قبل سامنے آیا تھا، جس پر بھارت نے شدید احتجاج کیا تھا۔ بھارت نے اسے "فضول مشق” قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ چین کا یہ عمل بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے اور اس کا اروناچل پردیش پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

سرحدی تنازعہ: سکم سے لداخ تک کی سرحد

چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعہ کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اس میں متنازعہ علاقے سکم سے مشرقی لداخ تک تقریباً 3,000 کلومیٹر کی سرحد شامل ہے۔ ان علاقوں میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC) قائم ہے اور دونوں ممالک کے درمیان اس سرحد کی حدود پر اختلافات موجود ہیں۔ اس سرحدی تنازعے کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بھی پائی جاتی ہے، اور اس بات کا ثبوت 2020 کے جون میں مشرقی لداخ میں ہونے والی خونریز جھڑپوں میں ملتا ہے، جس میں بھارت کے کم از کم 20 فوجی اور چین کے 4 فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

مستقبل میں بڑھتی کشیدگی کا امکان

چین اور بھارت کے درمیان یہ کشیدگی اس بات کا عندیہ ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں مستقبل میں مزید تناؤ آ سکتا ہے۔ اروناچل پردیش پر چین کا دعویٰ اور بھارت کا اسے اپنے اٹوٹ حصہ قرار دینا دونوں ملکوں کے درمیان ایک سنگین سفارتی چیلنج ہے۔

پاکستان نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی برادری کو چین اور بھارت کے اس سرحدی تنازعے پر گہری نظر رکھنی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ دونوں ممالک کسی بڑے تصادم سے بچنے کے لیے اپنی سفارتی کوششوں کو مزید مؤثر بنائیں۔

نتیجہ

چین اور بھارت کے درمیان اروناچل پردیش پر جاری تنازعہ کے حوالے سے جاری کشیدگی کے پیش نظر، عالمی برادری کی توجہ اس خطے کی طرف مرکوز ہے۔ دونوں ممالک کی حکومتوں کو اس مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ اس تنازعے کے مزید پیچیدہ ہونے سے بچا جا سکے اور دونوں ممالک کے درمیان دیرپا امن قائم ہو سکے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button