
بنت حوا جبر مسلسل کا شکار…… پیر مشتاق رضوی
صنفی تشدد کے واقعات رپورٹ ہوۓ جبکہ 1,969 خواتین جنسی تشدد کا شکار ہوئیں واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار مختلف رپورٹس اور انڈیکس سے لیے گئے ہیں، جن میں ہومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن شامل ہیں
صنفی تشدد کے خلاف پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال کی طرح امسال 16 روزہ سماجی مہم 25 نومبر سے 10 دسمبر تک چلائی جا رہی ہے اس مہم کا اختتام انسانی حقوق کے عالمی یوم۔10 دسمبر کو ہو گا، جس کا مقصد صنفی تشدد کو ختم کرنا- تشدد کے شکار افراد کو مدد فراہم کرنا اور صنفی مساوات کو فروغ دینا ہےکیونکہ صنفی تشدد ایک عالمی اور سنگین ترین سماجی مسئلہ ہےتشدد کے شکار افراد کو مدد کی ضرورت ہےاس مہم کے ذریعے، ہم صنفی تشدد کے خلاف آگاہی پیدا کر سکتے ہیں اور اسے ختم کرنے کے لیے اقدامات کر سکتے ہیں۔پاکستان میں صنفی تشدد ایک بڑا معاشرتی مسئلہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2024ء میں 32,617 صنفی تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 5,339 تجاوزات، 24,439 اغوا، 2,238 گھریلو تشدد، اور غیرت کے نام پر547 قتل کے واقعات شامل ہیں۔ تاہم، مجرموں کو سزا کی شرح بہت کم ہے، جو براۓ نام صرف 0.5% ہے 2024ء میں پاکستان میں547 خواتین غیرت کے نام پر قتل کی گئیں 2024ء میں پاکستان میں 5,339 صنفی تشدد کے واقعات رپورٹ ہوۓ جبکہ 1,969 خواتین جنسی تشدد کا شکار ہوئیں واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار مختلف رپورٹس اور انڈیکس سے لیے گئے ہیں، جن میں ہومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن شامل ہیں۔پاکستان میں گھریلو تشدد کا شکار خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ 2024ء میں، 2,238 گھریلو تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے، جبکہ جنسی تشدد کے 5,339 واقعات، اغوا کے 24,439 واقعات، اور نام کے قتل کے 547 واقعات کے ساتھ ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سب سے زیادہ صنفی تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے، جس میں 26,753 واقعات شامل ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں 3,397 واقعات، سنده میں 1,781 واقعات، اور بلوچستان میں 398 واقعات رپورٹ ہوئے لیکن بدقسمتی سے صنفی تشدد کے واقعات کی سزا کی شرح بہت کم ہے، صنفی تشدد کے اسباب میں مردوں کی غلط روایات، عورتوں کے حقوق کی کمی، اور تشدد کے خلاف قوانین کی کمزوری شامل ہیں۔ سائبر تشدد پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ 2024ء میں، ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن نے 3,171 واقعات کی رپورٹ کی، جن میں سے زیادہ تر خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔ ان واقعات میں سائبر ہراسمنٹ، غیر موافق انٹیمیٹ امیجز، اور ڈیپ فیک پورنوگرافی شامل ہیں جن میں سائبر ہراسمنٹ کے 2,741 واقعات رپورٹ ہوۓ جبکہ ڈیپ فیک پورنوگرافی_: تیزی سے بڑھ رہا ہے پاکستان میں صنفی تشدد کی روک تھام کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ پاکستان میں صنفی تشدد کے خلاف کئی قوانین بنائے گئے ہیں، جیسے کہ ڈومیسٹک وائلنس (پروٹیکشن اینڈ پریونشن) ایکٹ 2020ء، سنڈھ ڈومیسٹک وائلنس (پروٹیکشن اینڈ پریونشن) ایکٹ 2013ء، اور پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف وومن ایٹ ورک پلیس ایکٹ 2010ء جبکہ پاکستان میں جنسی تشدد کے خلاف بھی کئی اقدامات کیے گئے ہیں، جیسے کہ جنسی تشدد کے خلاف کئی قوانین بنائے گئے ہیں اور جنسی تشدد کے واقعات کی رپورٹنگ کے لیے ہیلپ لائنز قائم کی گئی ہیں۔ پاکستان میں صنفی تشدد کے خلاف آگاہی مہم بھی چلائی جا رہی ہے، جس کا مقصد لوگوں کو صنفی تشدد کے خلاف آگاہ کرنا اور اسے روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ پاکستان میں صنفی تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کے لیے شیلٹر ہومز قائم کیے گئے ہیں، جہاں انہیں حفاظت اور مدد فراہم کی جاتی ہے۔ پاکستان میں پولیس اور ججوں کو صنفی تشدد کے خلاف تربیت دی جا رہی ہے، تاکہ وہ صنفی تشدد کے واقعات کو صحیح طریقے سے ہینڈل کر سکیں صنفی تشدد کا شکار خواتین کو قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پنجاب پولیس کئی طرح کی مدد فراہم کر سکتے ہیں پنجاب پولیس خواتین کے لیے 24/7 ہیلپ لائن 1815 فراہم کرتی ہے، جہاں وہ اپنی شکایات درج کروا سکتی ہیں۔مختلف شہروں میں خواتین پولیس اسٹیشنز قائم کیے گئے ہیں، جہاں خواتین اپنی شکایات درج کروا سکتی ہیں۔پنجاب پولیس نے ڈیجیٹل پولیس سٹیشن قائم کیا ہے، جہاں خواتین اپنی شکایات آئینی طور پر درج کروا سکتی ہیں۔ پنجاب پولیس خواتین کو قانونی مدد فراہم کرتی ہے، تاکہ وہ اپنے حقوق کا دفاع کر سکیں۔ پنجاب پولیس خواتین کے لیے شیلٹر ہومز قائم کرتی ہے، جہاں وہ اپنی حفاظت کے لیے رہ سکتی ہیں۔ پنجاب پولیس خواتین کو مشاورت فراہم کرتی ہے، تاکہ وہ اپنی مشکلات کا حل نکال سکیں اس کے علاوہ صنفی تشدد کا شکار خواتین پاکستان میں کئی اداروں سے مدد اور ریلیف حاصل کر سکتی ہیں۔ یہاں کچھ اہم ادارے ہیں جن میں روزان ہیلپ لائن 36726679997 (پشاور) اور 0336-8884753 (اسلام آباد)اور*بولو ہیلپ لائن*: 0336-4441122 ،بیداری ہیلپ لائن: 1099 کے علاوہ*ڈیجیٹل سیکیورٹی ہیلپ لائن*: 0800-111-11-80 اور ہیلپ لائن 1815 سے متاثرہ خواتین رابطہ کر سکتی ہیں پاکستان کی پہلی خواتین ڈیجیٹل پولیس سٹیشن سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن: 001-123 0800 پر بھی رابطہ کیا جاسکتاہےصنفی تشدد کی روک تھام میں سماجی تنظیموں کا بہت اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ سماجی تنظیمیں مختلف طریقوں سے صنفی تشدد کے خلاف کام کرتی ہیں سماجی تنظیمیں صنفی تشدد کے خلاف آگاہی مہم چلاتی ہیں، جس کا مقصد لوگوں کو صنفی تشدد کے خلاف آگاہ کرنا اور اسے روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔سماجی تنظیمیں صنفی تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کو مشاورت اور مدد فراہم کرتی ہیں۔ سماجی تنظیمیں صنفی تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کو قانونی مدد فراہم کرتی ہیں۔سماجی تنظیمیں صنفی تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کے لیے شیلٹر ہومز قائم کرتی ہیں، جہاں انہیں حفاظت اور مدد فراہم کی جاتی ہے۔سماجی تنظیمیں پالیسی میکرز کے ساتھ کام کرتی ہیں تاکہ صنفی تشدد کے خلاف قوانین کو مضبوط بنایا جا سکے #


