
پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے حال ہی میں ایک افغان شہری قاسم عرف حسن کو گرفتار کیا ہے، جس کی گرفتاری کے بعد ایک بڑا دہشت گردی نیٹ ورک بے نقاب ہوا ہے جو افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں پھیلانے کی کوشش کر رہا تھا۔
قاسم عرف حسن کا تعلق افغانستان کے گردیز ولایت سے ہے اور اس نے تقریباً 10 سال قبل اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان کے علاقے لکی مروت میں پناہ لی تھی۔ اس کی گرفتاری کے بعد جو اعترافی بیان سامنے آیا ہے، اس سے دہشت گردی کے ایک منظم نیٹ ورک کے حوالے سے اہم معلومات ملتی ہیں، جو پاکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے افغان سرزمین کا استعمال کر رہا تھا۔
طالبان کے ساتھ تعلقات اور جہادی نیٹ ورک میں شمولیت
قاسم عرف حسن نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ اس کی طالبان کے ساتھ پہلی ملاقات 2025 میں ہوئی، جب وہ طالبان کے ایک کمانڈر ارمانی سے سرہ درگہ میں ملا۔ اس ملاقات کے دوران، ارمانی نے اسے جہاد کی دعوت دی اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی پیشکش کی۔ قاسم نے اپنی ابتدائی تربیت اور تجربہ کے دوران طالبان کے مختلف آپریشنز اور دہشت گردی کے منصوبوں میں حصہ لیا۔
قاسم نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ اس نے طالبان کے اشارے پر ایک فوجی قلعہ پر فدائی حملے کی تیاری کی تھی، تاہم، حملہ کرنے کا موقع نہ ملنے کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ اس کے بعد کمانڈر ارمانی کے مشورے پر قاسم دوبارہ طالبان کے نیٹ ورک میں شامل ہو گیا اور نئے افراد کو دہشت گردی کی کارروائیوں میں شامل کرنے کا کام شروع کر دیا۔
پاکستان میں دہشت گردی کے لیے بھرتی اور ریکی
قاسم عرف حسن نے اپنے بیان میں یہ بھی بتایا کہ وہ افغانستان سے پاکستان آ کر طالبان کے لیے نوجوانوں کو بھرتی کرنے کا عمل شروع کر چکا تھا۔ اس نے پانچ افراد کو طالبان کے کمانڈر کے حوالے کیا اور ہر فرد سے 10 ہزار روپے وصول کیے۔ قاسم کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد پاکستان میں مزید دہشت گردوں کی بھرتی کرنا اور ان کے ذریعے مختلف دہشت گردانہ کارروائیاں کرنا تھا۔
پنجاب میں دہشت گردی کے منصوبے کی ناکامی
گرفتاری کے دوران قاسم نے انکشاف کیا کہ ستمبر 2025 میں وہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں نوجوانوں کو طالبان میں بھرتی کرنے کے لیے گیا تھا، جہاں پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔ قاسم کے مطابق، وہ نوجوانوں کو طالبان کی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ ان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں انجام دی جا سکیں۔
افغان سرزمین سے دہشت گردی کی معاونت
قاسم عرف حسن کی گرفتاری اور اس کے اعترافی بیان کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ اس ویڈیو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گرد افغانستان کے علاقے میں چھپ کر پاکستان میں کارروائیاں کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور وہاں سے پاکستانی حدود میں دہشت گردی کی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔
پاکستان نے عالمی سطح پر متعدد بار افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے کے بارے میں شواہد فراہم کیے ہیں۔ قاسم کے اعترافات نے ان دعوؤں کو مزید تقویت دی ہے اور یہ عالمی برادری کے لیے ایک اہم اشارہ ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی کو خطرات سے بچانے کے لیے افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کی ضرورت ہے۔
پاکستان کا موقف اور عالمی ردعمل
پاکستان نے اس واقعے کے بعد ایک مرتبہ پھر دنیا سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں کے خلاف موثر اقدامات کیے جائیں تاکہ پاکستان کے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کیا جا سکے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے افغان حکومت کو بین الاقوامی سطح پر دباؤ ڈالنا ضروری ہے تاکہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کا سلسلہ روکا جا سکے۔
قاسم عرف حسن کی گرفتاری اور اس کی جانب سے دیے گئے اعترافی بیان نے ایک اور واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہ صرف اپنی حدود میں بلکہ سرحد پار سے بھی اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کر رہا ہے۔ اس نیٹ ورک کی نشاندہی اور اس کے خلاف کارروائی کرنا پاکستان کی سلامتی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
نتیجہ
قاسم عرف حسن کی گرفتاری اور اس کے اعترافات پاکستان میں دہشت گردی کے پھیلاؤ کے بارے میں ایک سنگین تشویش کو جنم دیتے ہیں، جس میں افغان سرزمین کا استعمال ایک اہم پہلو ہے۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے لیے یہ ایک اور موقع ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اپنی کارروائیوں کو مزید تیز کریں اور عالمی برادری سے تعاون کی درخواست کریں تاکہ اس خطرے کا موثر طریقے سے مقابلہ کیا جا سکے۔



