پاکستاناہم خبریں

پاکستان میں خیبر پختونخوا میں گورنر راج کی تجویز: ایک جامع تجزیہ

خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگانے کی حکومت کی توجیہات کمزور ہیں۔ ان کے مطابق، بدترین سکیورٹی حالات کے باوجود، جمہوریت کو مضبوط کرنا زیادہ ضروری ہے، نہ کہ اسے کم کیا جائے۔

سید عاطف ندیم.پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں حالیہ دنوں میں گورنر راج لگانے کی بازگشت ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہی ہے۔ وفاقی وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر صوبے میں حالات مزید بگڑتے ہیں تو گورنر راج کی مدت ابتدائی طور پر دو ماہ کے لیے نافذ کی جا سکتی ہے، جس میں توسیع بھی ممکن ہے۔ وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ صوبے میں انتظامی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو بہتر حکمرانی مل سکے۔ ان کی اس بات کے بعد خیبر پختونخوا کی سیاسی صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے، جس میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے درمیان تنازعات بڑھ رہے ہیں۔

گورنر راج کے پیچھے کیا عوامل ہیں؟

حال ہی میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کے اشارے دیے ہیں اور انہوں نے اڈیالہ جیل میں قید عمران خان سے ملاقات کی کوشش کی تھی، جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس کے بعد، وزیر اعلیٰ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر احتجاج کی کال بھی دی ہے، جس سے صوبے میں سیاسی کشیدگی بڑھ گئی ہے۔

اس دوران وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہو چکے ہیں، اور تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگانے کی حکومت کی توجیہات کمزور ہیں۔ ان کے مطابق، بدترین سکیورٹی حالات کے باوجود، جمہوریت کو مضبوط کرنا زیادہ ضروری ہے، نہ کہ اسے کم کیا جائے۔

خیبر پختونخوا کی سیاسی صورتحال اور گورنر راج کی توجیہات

وزیر مملکت بیرسٹر عقیل ملک کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں ایسے انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے جو صوبے کے شہریوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں۔ ان کے مطابق، صوبے میں سکیورٹی کے مسائل اور مالی مشکلات کے باوجود وفاقی حکومت کو صوبے کے حقوق کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، گورنر راج کے نفاذ کی دھمکی سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وفاقی حکومت وزیر اعلیٰ کو دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ وہ حکومتی اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔

گورنر راج کا آئینی پس منظر

آئین پاکستان کے مطابق، گورنر راج کا نفاذ دو آرٹیکلز پر مبنی ہوتا ہے: آرٹیکل 232 اور آرٹیکل 234۔ اگر صدر پاکستان سمجھتے ہیں کہ کسی صوبے میں داخلی شورش یا سکیورٹی کی صورت حال وفاق کے کنٹرول سے باہر ہو چکی ہے، تو وہ گورنر راج نافذ کر سکتے ہیں۔ گورنر راج کا نفاذ صوبے میں تمام اختیارات گورنر کے حوالے کر دیتا ہے اور صوبائی اسمبلی اور وزیر اعلیٰ کے اختیارات معطل ہو جاتے ہیں۔ اس دوران، صوبے کی حکومتی امور وفاق کے تحت چلنے لگتے ہیں۔

گورنر راج کی مدت عموماً دو ماہ ہوتی ہے، اور اس کی توثیق وفاقی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر گورنر راج کی مدت کے دوران قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے تو صوبے میں گورنر راج تین ماہ تک جاری رہتا ہے۔

گورنر راج کی تاریخ

پاکستان کے مختلف صوبوں میں گورنر راج کا نفاذ ایک پیچیدہ تاریخ رکھتا ہے۔ 1947 میں پاکستان کے قیام کے فوراً بعد صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں پہلی بار گورنر راج نافذ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد مختلف اوقات میں ملک کے دیگر صوبوں میں بھی گورنر راج لگایا گیا، جیسے کہ 1958 میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور مشرقی بنگال میں گورنر راج لگایا گیا۔

پاکستان میں اب تک 15 مرتبہ گورنر راج نافذ کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں یہ تیسری بار لگایا جا رہا ہے، اور اس کا مقصد صوبے کی حکومت کو وفاق کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے پر مجبور کرنا بتایا جا رہا ہے۔

گورنر راج کے نفاذ پر مختلف آراء

اس تجویز پر مختلف سیاسی جماعتوں اور تجزیہ کاروں کے مختلف خیالات ہیں۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات شفیع جان نے گورنر راج کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر وفاقی حکومت واقعی ایسا چاہتی ہے تو فوراً گورنر راج نافذ کر دیا جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبے میں گورنر راج کی ضرورت نہیں، بلکہ صوبے کی حکومت کو وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر مسائل حل کرنے چاہیے۔

دوسری جانب، خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ صوبے میں گورنر راج کا نفاذ اس بات پر منحصر ہے کہ صوبائی حکومت وفاق کے ساتھ کیسے تعلقات قائم کرتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وزیر اعلیٰ وفاقی حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تو گورنر راج کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

گورنر راج کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے؟

آئین پاکستان کے دسویں باب کے تحت، گورنر راج کے نفاذ کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ آرٹیکل 236 کے تحت اس باب کے تحت کیے گئے اقدامات آئینی طور پر جائز سمجھے جاتے ہیں، اور ان پر کسی بھی قسم کی قانونی رٹ دائر نہیں کی جا سکتی۔ تاہم، کوئی بھی شخص عدالت میں یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ آئین کی دیگر شقوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا اس کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں۔

نتیجہ

پاکستان میں خیبر پختونخوا میں گورنر راج کی تجویز ایک پیچیدہ سیاسی اور آئینی مسئلہ بن چکا ہے۔ اگرچہ وفاقی حکومت نے اس اقدام کو ایک ممکنہ حل کے طور پر پیش کیا ہے، لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس سے مسائل کا حل نہیں نکلے گا۔ گورنر راج کے نفاذ سے صوبے میں حکومت کی جڑوں کو مزید کمزور کیا جا سکتا ہے، اور اس کے نتیجے میں مزید سیاسی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ اس وقت ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر صوبے کے مسائل کا حل تلاش کریں اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے تعاون کریں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button