اہم خبریںبین الاقوامی

عادل راجہ کو لندن ہائی کورٹ میں قانونی شکست، بریگیڈیئر راشد نصیر کے حق میں فیصلہ

عدالت نے عادل راجہ کو حکم دیا کہ وہ عوامی معافی نامہ شائع کریں، جو ان کے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز — X (سابقہ Twitter)، Facebook، YouTube — اور ان کی آفیشل ویب سائٹ پر کم از کم 28 دن تک برقرار رہے۔

رپورٹ لندن،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

لندن ہائی کورٹ نے یوٹیوبر اور سابق پاکستانی فوجی عادل راجہ کے خلاف سخت قانونی فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت کے جج رچرڈ سپیئرمین نے کہا کہ عادل راجہ کے الزامات، جن میں مبینہ بدعنوانی، انتخابات میں مداخلت، عدالتی اور پولیس میں اثراندازی شامل تھے، بے بنیاد، جھوٹے اور من گھڑت ہیں۔


عدالتی حکم کی تفصیلات

  • عدالت نے عادل راجہ کو حکم دیا کہ وہ عوامی معافی نامہ شائع کریں، جو ان کے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز — X (سابقہ Twitter)، Facebook، YouTube — اور ان کی آفیشل ویب سائٹ پر کم از کم 28 دن تک برقرار رہے۔

  • انہیں کل £310,000 ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جس میں £50,000 ہرجانہ اور تقریباً £260,000 قانونی اخراجات شامل ہیں۔ رقم 22 دسمبر 2025 تک جمع کروانی ہوگی۔

  • عدالت نے مزید سخت تنبیہ کی ہے کہ عادل راجہ مستقبل میں تخریبی اور بے بنیاد بیانات نہیں پھیلائیں گے، اور ان کے لیے کوئی اپیل کا حق بھی منظور نہیں کیا گیا۔


مقدمہ کی ابتدا اور نوعیت

یہ مقدمہ اگست 2022 میں شروع ہوا جب بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر نے عادل راجہ کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ Raja نے سوشل میڈیا پوسٹس اور ویڈیوز کے ذریعے نصیر پر سخت الزامات لگائے، جن کے حق میں کوئی معتبر ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

  • عادل راجہ کے پیش کردہ تین گواہان نصیر کے خلاف کوئی مستند شہادت فراہم نہیں کر سکے، اور عدالت نے ان کی گواہی کو ناقابل قبول قرار دیا۔

  • عدالت نے واضح کیا کہ وہ fact-finding report جس پر Raja نے الزامات کی بنیاد رکھی تھی، نصیر یا ان کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں کرتی۔ Raja نے عمومی معلومات کو مخصوص الزامات کے طور پر پیش کیا، جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔


عدالتی فیصلہ اور اس کا اثر

یہ فیصلہ واضح مثال ہے کہ سوشل میڈیا پر دعوے اور افواہیں اگر بے بنیاد ہوں تو قانونی طور پر چیلنج کی جا سکتی ہیں۔ عدالت نے یہ بھی ثابت کیا کہ صرف الزام لگانا اور آواز بلند کرنا کافی نہیں؛ حقائق اور شواہد کا ہونا ضروری ہے۔

  • افواہوں یا مبینہ حقائق کی بنیاد پر کسی شخص کی ساکھ یا عزت کو نقصان پہنچانا قانونی طور پر خطرناک ہو سکتا ہے، اور اسے نقصان کے ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔

  • یہ کیس ان افراد کے لیے مثال ہے جو اپنے مبینہ ذرائع کی بنیاد پر بغیر تصدیق کسی شخص یا ادارے پر الزامات عائد کرتے ہیں۔


مقدمے کی تفصیلات اور الزامات

  • عادل راجہ پر الزام تھا کہ انہوں نے نصیر پر لاہور ہائی کورٹ کا کنٹرول سنبھالنے، سیاستدانوں کو انتخابات میں ہیرا پھیری کے لیے رشوت دینے، پی ٹی آئی کے امیدواروں کو شکست دینے کے لیے پولیس کا استعمال کرنے، اور جنرل باجوہ کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگایا۔

  • Raja نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز X، Facebook، اور YouTube پر مبینہ طور پر دس ہتک آمیز پوسٹس شائع کیں، جس کے بعد نصیر نے قانونی کارروائی شروع کی۔


عدالتی کارروائی اور اپیل

  • یوٹیوبر عادل راجہ پر ریاست مخالف پروپیگنڈے کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔ عدالت نے حکم دیا کہ وہ بریگیڈیئر نصیر کو بدنام کرنے کے لیے عوامی طور پر معافی مانگیں، جو 28 دنوں تک سوشل میڈیا اور ویب سائٹ پر پوسٹ کرنا ضروری ہوگی۔

  • اکتوبر میں عدالت نے راجہ کی جانب سے دائر ہتک عزت کے مقدمے کو مسترد کیا تھا، اور بعد میں اپیل کرنے کی کوشش بھی ناکام رہی۔

  • بریگیڈیئر نصیر نے اکتوبر کے فیصلے سے متعلق حکم جاری کرنے کی استدعا کی، جس پر جج سپیئرمین نے حکم امتناعی بھی جاری کیا تاکہ راجہ مستقبل میں مزید ہتک آمیز بیانات شائع نہ کر سکیں۔

  • راجہ کے وکیل نے اشارہ دیا کہ وہ کیس کو کورٹ آف اپیل میں لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔


بین الاقوامی پہلو

  • گزشتہ ہفتے حکومت پاکستان نے شہزاد اکبر اور عادل راجہ کی حوالگی کی دستاویزات برطانوی ہائی کمشنر کو پیش کیں، جس میں ان کی فوری واپسی کی درخواست کی گئی۔

  • وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ یہ افراد پاکستان میں مطلوب ہیں اور انہیں بلا تاخیر حوالے کیا جانا چاہیے۔

  • پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات، سیکورٹی تعاون، اور باہمی دلچسپی کے امور پر بھی بات ہوئی۔


خلاصہ

لندن ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ بریگیڈیئر نصیر کی ہتک عزت کے خلاف ناعادلانہ الزامات اور مبینہ جھوٹ پر مبنی مہم کے خلاف ایک واضح عدالتی ردعمل ہے۔ عدالت نے ثابت کیا ہے کہ دعوے اور الزامات کو ثبوت کے ساتھ ثابت کرنا لازمی ہے، اور جھوٹے الزامات کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں، چاہے وہ سوشل میڈیا پر ہوں یا عوامی محفلوں میں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button