
(تحریر: شبنم فان ہائن)
اسرائیل اور ایران کے درمیان جون میں ہونے والی 12 روزہ جنگ کے بعد سے ایران نے آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو ان تنصیبات تک رسائی نہیں دی جن پر امریکی حملہ ہوا تھا۔
ایسے میں جبکہ یہ تنازعہ برقرار ہے، ماسکو، تہران کے ساتھ جوہری تعاون کو مزید بڑھا رہا ہے۔
ایران میں روس کے سفیر الیکسی دیدوف نے نومبر میں کہا تھا،”ہمارا تعاون بے مثال سطح تک پہنچ چکا ہے۔‘‘

بڑے وعدے، لیکن پیش رفت نہیں
ستمبر کے اواخر میں روس اور ایران نے چھوٹے پیمانے پر جوہری بجلی گھروں کی تعمیر کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ صرف دو دن بعد، روس کی سرکاری جوہری توانائی کارپوریشن ‘روس اٹوم‘نے ایران میں چار جوہری پاور پلانٹس کی تعمیر کے لیے 25 ارب ڈالر کے معاہدے کو حتمی شکل دے دیا۔
برلن میں پالیسی کنسلٹنگ فرم ‘اورینٹ میٹرز‘ کے سربراہ ڈیوڈ جلیل وند کے مطابق،”ایران کے جوہری پروگرام میں روس اس کا اہم ترین بین الاقوامی شراکت دار ہے۔‘‘
تاہم انہوں نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا، ”جہاں تک ایران کے جوہری پروگرام کے توسیعی منصوبوں کا تعلق ہے، ماسکو نے اب تک زیادہ تر وعدے ہی کیے ہیں، عملی طور پر بہت کم دیا ہے۔‘‘
فی الحال ایران کے پاس صرف ایک فعال جوہری بجلی گھر ہے، جو روس نے جنوبی شہر بوشہر میں تعمیر کیا تھا۔ بوشہر میں دوسرے ری ایکٹر کی تعمیر 2016 میں اعلان ہوئی تھی، مگر ابھی تک شروع نہیں ہو سکی۔
جلیل وند کا کہنا ہے کہ حالیہ دستخط شدہ معاہدہ بھی جلد عملی شکل اختیار کرتا نظر نہیں آتا۔
انہوں نے کہا،”روس کی دلچسپی ایران کی اسٹریٹجک حیثیت کو مشرقِ وسطیٰ میں مضبوط کرنے میں کم ہے۔ کیونکہ روس کے اسرائیل، خلیجی ممالک اور ترکی کے ساتھ بھی اہم تعلقات موجود ہیں۔‘‘

روس۔ایران اتحاد تنقید کی زد پر
حالیہ اسرائیل۔ایران جنگ کے دوران تہران کو ماسکو کی جانب سے بہت محدود حمایت ملی۔
جنوری میں روس اور ایران نے اسٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدے پر دستخط کیے، جس کا مقصد مختلف شعبوں، خصوصاً فوجی تعاون، جوہری توانائی، جدید ٹیکنالوجی اور مالیاتی تعاون، کو مضبوط کرنا تھا تاکہ بین الاقوامی پابندیوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔
یہ معاہدہ 2001 میں ہونے والے 20 سالہ اسٹریٹجک معاہدے کی توسیع تھا، جو وقتاً فوقتاً نئے سرے سے نافذ ہوتا رہا ہے اور توانائی، دفاع اور عسکری شعبوں میں دونوں ممالک کے تعاون کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔
تہران نے یوکرین کی جنگ میں روس کی مدد کے لیے ڈرونز اور ہتھیار فراہم کیے، جس سے وہ یورپ سے اپنے تعلقات کی قیمت پر ماسکو کا اہم ترین اتحادی بن گیا ہے۔
جواباً ایران نے اپنی فضائیہ کو جدید بنانے کے لیے روس کے سخوئی لڑاکا طیاروں سمیت دیگر دفاعی سازوسامان کا آرڈر دیا ہے۔
تاہم یہ طیارے ابھی تیاری کے مراحل میں ہیں اور اسرائیل کے ساتھ جنگ نے ایران کے فضائی دفاع کی کمزوریاں کھول کر رکھ دیں۔
ایران کی بااثر رہنما محمد صدر نے نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا، ”روس کے ساتھ اسٹریٹجک معاہدہ ایک تماشا ثابت ہوا، روس قابلِ اعتماد نہیں۔ یہ سوچنا کہ وہ ہمارے ساتھ کھڑا ہو گا یا امریکہ کا مقابلہ کرے گا، سراسر مضحکہ خیز ہے۔‘‘
ایرانی معاشرے میں روس کی شبیہ بھی اسی طرح منفی ہے۔
تہران کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں کہا، ”لوگ جانتے ہیں کہ روس اہم موقعوں پر ایران کو تنہا چھوڑ دیتا ہے۔‘‘
اکثر افراد کا یقین ہے کہ حکومت عوام کے مفاد کے لیے نہیں بلکہ محض اپنی بقا کے لیے ماسکو سے چمٹی ہوئی ہے۔
ایران کی قدامت پسند قوتیں ماسکو کے ساتھ تعاون کو مزید گہرا کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
آذربائیجان میں ایران کے سابق سفیر افشار سلیمانی نے کہا،”ایران کے مراکزِ اقتدار میں روس کا اثر و رسوخ ناقابلِ انکار ہے۔‘‘
انہوں نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”قدامت پسند حلقے روس کی حمایت کرتے ہیں، ایران کے ڈرون ماسکو کو دینے کے حامی ہیں، اور امریکہ کے ساتھ کشیدگی جاری رکھنے کو بھی ترجیح دیتے ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا اثر کتنا مضبوط ہے۔ جب تک یہ سیاسی سوچ برسراقتدار رہے گی، کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں اور اس کے نتائج عوام ہی بھگتیں گے۔‘‘
ایرانی پارلیمان کی داخلی امور کمیٹی کے قدامت پسند رکن کامران غظنفری نے تو یہ دعویٰ بھی کیا کہ روس کے سابق صدر و وزیر اعظم اور روسی سلامتی کونسل کے موجودہ نائب چیئرمین دیمتری میدویدیف نے بالواسطہ طور پر اشارہ دیا ہے کہ روس ایران کو جوہری ہتھیار فراہم کرنے پر آمادہ ہو سکتا ہے۔ جلیل وند کے مطابق ایسا امکان انتہائی کم ہے۔ انہوں نے وضاحت کی، ”روس کی ایسی کوئی دلچسپی نہیں کہ پہلے ہی غیر مستحکم مشرق وسطیٰ میں جوہری طاقتوں کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے۔‘‘
اگرچہ یہ ممکن ہے کہ ماسکو وہ ٹیکنالوجی فراہم کرے جسے ایران نظریاتی طور پر عسکری جوہری پروگرام میں استعمال کر سکے، مگر جوہری بم بنانے میں براہ راست مدد مکمل طور پر ناقابلِ تصور سمجھی جاتی ہے۔
اصل میں روس امریکہ کے ساتھ مذاکراتی حکمت عملی کے طور پر ایران کا کارڈ استعمال کر رہا ہے۔
تہران کا دعویٰ ہے کہ اس نے عارضی طور پر یورینیم کی افزودگی روک دی ہے، لیکن یہ اب بھی مبہم ہے کہ ماسکو ایران کو اپنے یورینیم ذخائر کم کرنے پر قائل کر پائے گا یا نہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کے ماہر جلیل وند کے مطابق روس نے ماضی میں بارہا خود کو ثالث کے طور پر پیش کیا ہے۔ مگر یہ جوہری تنازعے کے حل میں دلچسپی کے باعث نہیں بلکہ یوکرین جنگ کے تناظر میں ماسکو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ امریکہ کا تعمیری شراکت دار بن سکتا ہے اور اس طرح واشنگٹن اور یورپ کے درمیان مزید دراڑ ڈالنا چاہتا ہے۔



