
بیت اللحم میں دو سال بعد کرسمس کی رونقیں لوٹ آئیں
گزشتہ دو برسوں سے کرسمس تقریبات منسوخ کر رکھی تھیں۔ اس دوران مینجر اسکوائر میں ایک علامتی منظر پیش کیا گیا تھا

اس سال کی تقریبات کا آغاز ‘مقدس سرزمین‘ کہلانے والے اس شہر کے اعلیٰ کیتھولک رہنما، کارڈینل پیئرباتستا پیزابالا نے یروشلم سے بیت اللحم تک ایک روایتی جلوس کے دوران کیا۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا، ”یہ کرسمس روشنی سے بھرپور ہو۔‘‘ مینجر اسکوائر پہنچ کر انہوں نے غزہ کی چھوٹی سی مسیحی برادری کی جانب سے نیک خواہشات پہنچائیں، جہاں انہوں نے اتوار کو کرسمس سے پہلے کی ایک اجتماعی عبادت کی قیادت بھی کی تھی۔ انہوں نے کہا، ”ہم سب مل کر روشنی بننے کا فیصلہ کرتے ہیں، اوربیت اللحم کی روشنی دنیا کی روشنی ہے۔‘‘ اس موقع پر روایتی کرسمس گیتوں کی دھنیں سنائی دیں۔

سیاحت کی کمی نے بیت اللحم کو مفلوج کر دیا
بیت اللحم کی رہائشی اور ٹور گائیڈ جارجیٹ جاکامان، جنہوں نے گزشتہ دو سالوں میں اپنا کام انجام نہیں دیا ، نے کہا، ”آج خوشی کا دن ہے، امید کا دن، یہاں معمولات زندگی کی واپسی شروع ہو گئی ہیں۔‘‘ وہ اور ان کے شوہر مائیکل، جو خود بھی گائیڈ ہیں، بیت اللحم کے قدیم مسیحی خاندانوں سے تعلق رکھتےہیں۔ یہ ان دونوں کے ڈھائی سال اور دس ماہ کے دونوں بچوں کے لیے پہلی حقیقی کرسمس تقریب تھی۔
بیت اللحم کے میئر ماہیر نکولا کناواتی کے مطابق غزہ کی جنگ کے دوران شہر میں بے روزگاری کی شرح 14 فیصد سے بڑھ کر 65 فیصد تک پہنچ گئی۔

جنگ کے سائے میں بیت اللحم میں امید کی کرن
فرانس سے آنے والی ایک مسیحی زائر مونا ریور نے کہا، ”میں یہاں آئی کیونکہ میں جاننا چاہتی تھی کہ فلسطین کے لوگ کس حال سے گزر رہے ہیں، اور آپ محسوس کر سکتے ہیں کہ یہ لوگ بہت مشکل وقت سے گزرے ہیں۔‘‘ اگرچہ اس خاتون کے دوستوں اور خاندان نے انہیں غیر مستحکم حالات کے باعث اس سفر سے روکا، تاہم ریور نے کہا کہ بیت اللحم میں موجودگی نے انہیں کرسمس کے اصل معنی سمجھنے میں مدد دی۔ ان کے بقول، ”کرسمس امید کی علامت ہے، تاریک حالات میں روشنی، ایک کمزور بچہ جو سختی کا سامنا کر رہا ہے۔‘‘
یاد رہے کہ اکتوبر میں غزہ میں جنگ بندی کے آغاز کے باوجود مقبوضہ مغربی کنارے کے بیشتر علاقوں میں کشیدگی ابھی تک برقرار ہے۔



