یورپ

جرمنی: آنے والے سال میں حکومت کو کن مسائل کا سامنا رہے گا؟

اس کے لیے ایک کمیشن نظام میں بنیادی اصلاحات کرے گا اور 2026 کے وسط تک تجاویز پیش کرے گا۔

جواد احمد-جرمنی،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

پنشن، ہجرت اور فوج میں بھرتی جیسے مسائل اگلے برس جرمنی کی سیاست میں حاوی رہیں گے۔ سب سے بڑھ کر اس بات پر توجہ مرکوز ہو گی کہ سابقہ ​​مشرقی جرمنی کی ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں اے ایف ڈی کی کارکردگی کیسی رہے گی۔

جرمنی میں قدامت پسند کرسچن ڈیموکریٹس (سی ڈی یو) اور سینٹر لیفٹ کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کے اتحاد پر مبنی مخلوط حکومت کو آنے والے سال میں گھریلو پالیسی سے متعلق مشکل مسائل پر سوشل ڈیموکریٹس (ایس پی ڈی) سے نمٹنا پڑے گا۔

سخت بحث کے بعد حکومت نے دسمبر کے آغاز میں بنڈسٹاگ کے ذریعے ریاستی پنشن کے نظام کے لیے اپنا اصلاحاتی پیکج منظور کروا لیا اور اس طرح پنشن کی سطح 2031 تک مستحکم رہے گی۔ اس کے لیے ایک کمیشن نظام میں بنیادی اصلاحات کرے گا اور 2026 کے وسط تک تجاویز پیش کرے گا۔

ایک ایسے معاشرے میں جہاں عمر رسیدہ لوگ زیادہ رہ رہے ہیں اور بوڑھے لوگوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، بڑھاپے میں مالی تحفظ آنے والے سال بھی ملک اور اس کی حکومت کے لیے ایک اہم تشویش کا باعث رہے گا۔

2026 کے بجٹ میں، پنشن کے نقصانات کی تلافی کے لیے حکومت کی سبسڈی بہت بڑی یعنی 150 بلین ڈالر ہے، جو کل بجٹ کا ایک چوتھائی ہے۔ پنشن کمیشن پر دباؤ ہے کہ وہ ایک انتہائی پیچیدہ مسئلے پر حقیقی معنوں میں عملی تجاویز تیار کرے۔

ریٹائرمنٹ کی عمر کو 67 سال تک بڑھانے کی تجویز بھی اب بھی قابل منظور ہے۔ لیکن معاشیات کے پروفیسر جینس سڈیکم ہر ایک کے لیے ریٹائرمنٹ کی ایک مقررہ عمر کو ختم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

ان کی تجویز یہ ہے کہ کسی شخص کو ملنے والی پنشن کی مقدار کا انحصار صرف اس بات پر ہونا چاہیے کہ اس نے کتنے سال کام کیا ہے اور اس نظام میں کتنی ادائیگی کی ہے۔

چانسلر فریڈرش میرس کا کہنا ہے کہ یہ خیال "یقینی طور پر قابل غور ہے”۔انہوں نے مزید کہا، "میں چاہتا ہوں کہ ہم ایک جامع اصلاحات نافذ کر سکیں۔”

فوج میں سروس کی ایک نئی شکل

نئے سال کے آغاز میں، جرمنی میں 18 سال یا اس سے زیادہ عمر کے نوجوانوں کو حکومت کی طرف سے میل موصول ہوں گی۔ اس کے بعد مردوں سے منسلک ایک سوالنامہ مکمل کرنا ہو گا۔ خواتین بھی اپنی مرضی سے ایسا کر سکتی ہیں۔ یہ سوالات ذاتی تفصیلات، تعلیمی قابلیت اور دیگر قابلیت کے ساتھ ساتھ فوجی خدمات انجام دینے کی خواہش پر مرکوز ہیں۔ اس کے تحت ان کی مجموعی صحت اور فٹنس کا جائزہ لینے کے لیے طبی معائنے میں شرکت بھی لازمی ہو گی۔

جرمنی میں تارکین وطن
مئی 2025 میں موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیر داخلہ نے تارکین وطن کے لیے سخت پالیسی کا اعلان کیا تھا اور ہجرت کا مسئلہ اگلے سال بھی ایجنڈے میں سرفہرست رہے گاتصویر: Michael Matthey/AFP

حکومت اگلے دس سالوں میں بنڈس ویر فوجیوں کی تعداد کو موجودہ تقریباً 184,000 سے بڑھا کر 255,000 اور 270,000 کے درمیان کرنے کے لیے کافی رضاکاروں کی تلاش پر اعتماد کر رہی ہے۔ ریزرو فوجیوں کی تعداد کو بھی 200,000 تک بڑھانا ہے۔

اگر یہ سب رضاکارانہ بنیادوں پر کام نہیں کرتا ہے، تو حکومت لازمی بھرتی کی بحالی کے لیے آگے بڑھے گی، جو 2011 سے معطل ہے۔

انتہائی دائیں بازو کی اے ایف ڈی کا عروج

انتہائی دائیں بازو کی ‘الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی)، انتہا پسند عناصر پر مشتمل جماعت ہے، اور بنڈسٹاگ میں پہلے ہی سب سے مضبوط اپوزیشن جماعت ہے۔ 2026 میں کئی علاقائی انتخابات ہونے والے ہیں۔ مشرقی جرمنی کی سیکسونی اور انہالٹ جیسی کئي ریاستوں اسے کافی مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔

تو سوال یہ ہے کہ کیا جمہوری مرکزیت پسند جماعتیں اس رجحان کو بدل سکیں گی؟ اور اگر اے ایف ڈی دونوں ریاستوں میں بڑے فرق سے سب سے مضبوط پارٹی بن جاتی ہے، تو کیا سی ڈی یو کا اے ایف ڈی کے ساتھ کبھی تعاون نہ کرنے کا وعدہ پورا ہو سکے گا؟

دونوں ریاستوں میں انتخابات ستمبر تک نہیں ہیں، لیکن ان انتخابات میں ایف ڈی پر قابو پانے کا معاملہ ہی چھایا رہے گا۔

مارچ کے مہینے میں ہی مغربی ریاست وورٹمبرگ رائن لینڈ-پفالز میں اسمبلی کے انتخابات ہوں گے اور اس طرح ایک دلچسپ انتخابی سال کا آغاز ہو گا۔

اے ایف ڈی کے کارکنان
انتہائی دائیں بازو کی ‘الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی)، انتہا پسند عناصر پر مشتمل جماعت ہے، اور بنڈسٹاگ میں پہلے ہی سب سے مضبوط اپوزیشن جماعت بن چکی ہےتصویر: Martin Meissner/AP Photo/picture alliance

  امیگریشن اور بارڈر کنٹرول

ہجرت کا مسئلہ اگلے سال بھی ایجنڈے میں سرفہرست رہے گا۔ مئی 2025 میں موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے، وزیر داخلہ الیگزینڈر ڈوبرین نے واضح کیا تھا، "جرمنی اب تارکین وطن کے حوالے سے سخت پالیسی اپنا رہا ہے۔ زیادہ لوگ سرحد پر واپس چلے گئے ہیں۔”

دسمبر کے وسط میں، یورپی یونین کے وزرائے داخلہ نے بھی پناہ کی مشترکہ پالیسی کو نمایاں طور پر سخت کرنے پر اتفاق کیا۔ نام نہاد "واپسی کے مراکز” کو اب دوبارہ یورپی یونین سے باہر کے ممالک میں بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، حالانکہ پچھلی کوششیں، جیسا کہ البانیہ میں اطالوی حکومت کی طرف سے کی گئی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔

چانسلر میرس کا کہنا ہے کہ عام پناہ کی پالیسی کے ساتھ ہی، "ہم سرحدی کنٹرول کو یورپ سے باہر بیرونی سرحدوں پر منتقل کرنے کا بھی انتظام کریں گے۔” اس حوالے سے یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کے اقدام کو ابھی بھی یورپی یونین کی پارلیمنٹ سے منظوری درکار ہے۔

موسمیاتی پالیسی کے چیلنجز

دسمبر 2025 میں، یورپی یونین نے اپنی آب و ہوا کے اہداف کی وضاحت کی اور کہا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو 1990 کی سطح کے مقابلے میں 2040 تک 90 فیصد تک کم کرنا ہے، کیونکہ یورپی یونین کا مقصد 2050 تک آب و ہوا کے مسائل سے نجات حاصل کرنا ہے۔

جرمنی کے وزیر ماحولیات کارسٹن شنائیڈر کافی خوش ہیں، جن کا آب و ہوا سے متعلق نیا ہدف شاید اس قانون سازی کی مدت کا سب سے اہم موسمیاتی پالیسی فیصلہ ہے۔

مارچ میں وہ ایک نیا آب و ہوا کے تحفظ کا منصوبہ پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور بتاتے بھی ہیں کہ جرمنی اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں کس طرح اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ تاہم اقتصادیات کی وزیر کیتھرینا ریشے گیس سے چلنے والے پاور پلانٹس پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں اور انہوں نے ہوا اور شمسی توانائی کو پھیلانے میں کم دلچسپی ظاہر کی ہے۔

ماحولیاتی گروپ گرین پیس کے موسمیاتی ماہر مارٹن کیزر نے بتایا، "پچھلی مخلوط حکومت کے برعکس، ٹرانسپورٹ اور ہاؤسنگ کے شعبوں میں ڈرامائی کوتاہیوں کا مقابلہ مناسب اور سماجی طور پر قابل قبول اقدامات سے کیا جانا چاہیے۔”

ریشے کی منصوبہ بندی کے مطابق صنعتی اور توانائی کی پالیسی میں فوصل فیول رول بیک کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

اس لیے حکومت کو اگلے برس بھی موسمیاتی پالیسی پر ایک سنجیدہ بحث کا سامنا ہے، جیسا کہ بہت سے دوسرے مسائل کے ساتھ ہے۔ مجموعی طور پر، 2026 یقیناً جرمن سیاست دانوں کے لیے ایک اعصاب شکن سال ہو گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button