
میانمار میں کئی سالہ خانہ جنگی کے بعد فوجی نگرانی میں الیکشن
نوبل انعام یافتہ خاتون سیاستدان سوچی کی سیاسی پارٹی کو ملکی فوج نے اس وقت تحلیل کر دیا تھا
نوبل انعام یافتہ خاتون سیاستدان سوچی کی سیاسی پارٹی کو ملکی فوج نے اس وقت تحلیل کر دیا تھا، جب فروری 2021ء میں اس ملک میں تقریباﹰ ایک عشرے تک جاری رہنے والے جمہوری عمل کو منتخب سول حکومت کا تختہ الٹنے والی فوج نے یکدم ختم کر دیا تھا۔

غیر جانبدار بین الاقوامی مبصرین کا اظہار تشویش
میانمار میں آج ہونے والے عام انتخابات پر غیر جانبدار بین الاقوامی مبصرین کی سب سے بڑی تنقید یہ ہے کہ ملک میں جموریت کی بحالی کی عملی کوشش کے نام پر اس عمل کے ذریعے ملک میں مارشل لاء کو صرف ایک نئی شکل دے دی جائے گی اور یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ انتخابی عمل مختلف مراحل میں ایک ماہ میں مکمل ہو گا۔
ایک اور باعث تشویش پہلو یہ بھی ہے کہ اس الیکشن میں زیادہ تر امیدوار فوج ہی کے حامی یا اتحادی ہیں اور ملک کی سیاسی اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاؤن تو پہلے بھی جاری تھا اور اس نام نہاد انتخابی عمل سے پہلے اور دوران بھی جاری رہا۔
مجموعی طور پر 50 ملین کی آبادی والا ملک میانمار آج بھی طویل خونریز خانہ جنگی کے داخلی سیاسی اثرات اور سماجی دھڑے بندیوں کا شکار ہے اور ملک کے وہ علاقے جو حکومت مخالف باغیوں کے کنٹرول میں ہیں، وہاں تو فوجی حکمرانوں کے فیصلے کے مطابق عوامی رائے دہی ہو گی بھی نہیں۔

تین مراحل میں عوامی رائے دہی
میانمارمیں ”قومی انتخابات کے‘‘ دوران ملکی فوج کے زیر اثر علاقوں میں تین مراحل میں جو عوامی رائے دہی کرائی جائے گی، اس کا پہلا مرحلہ مقامی وقت کے مطابق اتوار کی صبح شروع ہوا۔ اس کے بعد تیسرے مرحلے کی رائے دہی کی تکمیل تک مجموعی طور پر قریب ایک مہینہ گزر چکا ہو گا۔
میانمار کے موجودہ آئین کے مطابق قومی پارلیمان میں 25 فیصد نشستیں ملکی مسلح افواج کے لیے مخصوص ہیں۔

اس کے علاوہ ملک کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت قومی لیگ برائے جمہوریت نہ صرف قانوناﹰ تحلیل کی جا چکی ہے بلکہ اس کی نوبل انعام یافتہ رہنما اونگ سان سوچی اس وقت 27 سال کی وہ سزائے قید کاٹ رہی ہیں، جو انہیں کرپشن اور کورونا کی عالمی وبا کے دوران سرکاری حفاظتی ضابطوں کی خلاف ورزی جیسے مبینہ جرائم کے باعث سنائی گئی تھی۔
انسانی حقوق کی کئی بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق سوچی کو فوجی حکمرانوں کے ایما پر یہ طویل سزائے قید ایک نام نہاد عدالتی کارروائی کے بعد لیکن خالصتاﹰ سیاسی وجوہات کی بنا پر سنائی گئی تھی۔



