ترکی کی شام میں کرد ملیشیا کے خلاف فوجی کارروائی کی تیاری
ترکی شمالی شام میں امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا کے خلاف ممکنہ مزید فوجی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے۔
ترکی شمالی شام میں امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا کے خلاف ممکنہ مزید فوجی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے دو ترک حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر ترکی کی امریکہ اور روس کے ساتھ اس مسئلے پر بات چیت ناکام ہو گئی تو وہ کرد ملیشیا کے خلاف کارروائی کرے گا۔
رواں ہفتے ترک صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ انقرہ شمالی شام میں پیدا ہونے والے خطرات کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہے اور یہ کہ کرد وائی پی جی ملیشیا کا حملہ جس میں دو ترک پولیس افسران ہلاک ہوئے ناقابل برداشت ہے۔
ترکی نے کہا ہے کہ شام کے علاقے عزاز میں پولیس کو اتوار کے روز وائی پی جی کی جانب سے گائیڈڈ میزائل حملے میں نشانہ بنایا گیا جسے وہ ایک دہشت گرد گروہ سمجھتا ہے جو جنوب مشرقی ترکی میں کئی دہائیوں سے جاری شورش سے لڑنے والے عسکریت پسندوں سے قریبی تعلق رکھتا ہے۔
ترکی کے ایک سینیئر عہدے دار نے روئٹرز کو بتایا کہ ’یہ ضروری ہے تل رفات جس علاقے سے ہم پر حملے کیے جارہے ہیں کو صاف کیا جائے۔‘
ترک افواج نے گذشتہ پانچ برسوں کے دوران کرد ملیشیا کے خلاف تین حملے کیے جن میں سینکڑوں کلومیٹر سرحدی پٹی پر قبضہ کیا اور اسے 30 کلومیٹر تک شمالی شام میں دھکیل دیا۔
کردش وائی پی جی کے علاوہ روسی جیٹ طیارے، ایران کے حمایت یافتہ جنگجو، ترکی کے حمایت یافتہ باغی، جہادی، امریکی فوجی اور شامی سرکاری افواج کی بھی شمالی شام کے علاقوں میں موجودگی نظر آتی ہے۔
امریکہ سمجھتا ہے کہ شمالی مشرقی شام میں وائی پی جی داعش کے خلاف لڑائی میں اس کا اہم اتحادی ہے جبکہ روسی افواج صدر بشار الاسد کی حمایت کے لیے موجود ہیں