انعام الحسن کاشمیریکالمز

بھارت مقبوضہ کشمیر کے عوام کو انسان نہیں سمجھتا!!….انعام الحسن کاشمیری (خیال کشمیر)

ون صدی کے دوران بھارتی فوج نے ظلم وتشدد کا ہر وہ حربہ اختیار کرنے میں کسی پس وپیش سے کام نہیں لیاجو کہ صدائے حریت کو کچلنے کے لیے استعمال کرنا ضروری خیال کیا گیا ہو

1947ء سے آج 2022 ء تک مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے، فوجی یلغار اور مسلمانان کشمیر کی آواز کو دبانے کے لیے ان پر انسانیت سوز مظالم کو 75برس گزر چکے ہیں۔ پون صدی کے دوران بھارتی فوج نے ظلم وتشدد کا ہر وہ حربہ اختیار کرنے میں کسی پس وپیش سے کام نہیں لیاجو کہ صدائے حریت کو کچلنے کے لیے استعمال کرنا ضروری خیال کیا گیا ہو۔ انسانی حقوق کے آج عالمی دن کے موقع پر جب مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم پر نظرڈالی جاتی ہے تو حیران کن انکشافات سامنے آتے ہیں۔ دیگر تمام مظالم ایک طرف جو حریت پسندوں کے جسموں پر آزمائے گئے، یہاں تک کہ ان کی روحوں کو پامال کرنے اور ان کے حریت پسندانہ جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لیے عصمت دری کے اقدام کو بھی جنگی ہتھیار کے طور پر اختیار کیا گیا۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں متعدد ایسے دیہات ہیں جہاں ایک ہی رات میں کئی کئی خواتین سے اجتماعی زیادتی کی گئی۔ 23فروری 1991ء کو ضلع کپواڑہ کے دیہاتوں کنن اورپوش پورہ میں رات کے وقت بھاتی فوجیوں نے تلاشی کے بہانے مردوں کو ایک جگہ جمع کیا اور پھر ہوس کے اندھے فوجی گھروں میں گھس گئے جنھوں نے درجنوں خواتین کی عصمتوں کو پامال کیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ان مظلوم خواتین کی تعداد ایک سو کے قریب ہے۔ ہیومن رائٹس واچ اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کے مطابق متاثرہ خواتین کی تعداد 150کے لگ بھگ تھی۔ ان تنظیموں کے دباؤ پردہلی سرکار نے اس واقعہ کی اگرچہ تفتیش کی لیکن بعد میں اِسے بے بنیاد قراردے کر واقعہ میں ملوث فوجیوں کو بے گناہ قرار دے دیا۔ اس واقعہ کے بعد اس گاؤں کا نام ہی ”استحصالی گاؤں“ پڑ گیا۔
مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوج پچھلے 75برسوں سے انسانی حقوق کی زبردست خلاف ورزیوں میں ملوث ہے اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کے ان واقعات کو رپورٹ بھی کیا ہے لیکن اس کے باوجود بھارت نے ہمیشہ ڈھٹائی اختیار کیے رکھی رہی ہے۔ ہر واقعہ کے بعد اُس کا جواب یہی ہوتا رہاہے کہ یہ محض من گھڑت قصہ یا پراپیگنڈہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا موقف اختیار کرتے ہوئے بھارت انسانی حقوق کے علم بردار عالمی اداروں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ وغیرہ کو مقبوضہ کشمیر میں جانے اور وہاں کے حالات کا بغور مشاہدہ کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ پچھلے برس سے لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد پر بھارتی فوج بلااشتعال فائرنگ سے آزادکشمیر اور پاکستان میں درجنوں معصوم اور بے گناہ شہریوں کوشہید کرچکی ہے۔ ان واقعات کی عالمی سطح پر تشہیر ہوئی ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اگرچہ پاکستان کے راستے متعلقہ مقامات کے دورے کیے لیکن بھارت کی جانب سے انہیں سرحد پر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ بھارت کا یہ رویہ صاف ظاہر کردیتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم وجبر کا زبردست بازار گرم ہے اور بھارت واقعات کی پردہ پوشی کیلئے کسی مبصر کو کشمیر میں جانے کی اجازت نہیں دیتا تاکہ کہیں اُس کا پول نہ کھل جائے لیکن اس کے باوجود کشمیری نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے خود پر اور اپنی قوم پر بیتے حالات و واقعات سے عالمی دنیا کو آگاہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہی بھارت کا انتہائی تاریک اور بدنما چہرہ کشمیر کے مرغزاروں اور کوہساروں میں اپنی پوری بدہئیتی کے ساتھ دکھائی دیتاہے۔
اس وقت کشمیر میں مجموعی طور پر ساڑھے سات لاکھ بھارتی فوج تعینات ہے جو انسانی حقوق کی زبردست پامالیوں میں ملوث ہے۔ آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ 1958ء کے تحت سیکورٹی فورسز کو مکمل اختیارحاصل ہے کہ وہ مظاہرین کو کچلنے اور تحریک آزادی کو دبانے کیلئے ہر وسیلہ اور اقدام بروئے کار لاسکتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے خواہ وہ انسانی حقوق کی جس قدر بڑے پیمانے پر بھی خلاف ورزی کریں، اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ یہ ایکٹ مقبوضہ کشمیر میں 1990ء میں نافذ کیا گیاجب کشمیریوں کی مسلح تحریک عروج پر پہنچ چکی تھی اور مرکزی سرکار کے پاس انہیں کچلنے کیلئے کوئی حربہ نہ تھا۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں، اقوام متحدہ وغیرہ نے اس ایکٹ کے نفاذ پر زبردست تنقید کی تھی کیونکہ یہ ایکٹ براہ راست فوجی افسران کو یہ اختیار فراہم کرتا تھا کہ وہ اپنے مشن کی کامیابی اور مرکزی سرکاری کے احکامات پر عمل درآمد کیلئے ہر قسم کے حربے اختیار کرسکتے ہیں اور اس ضمن میں انہیں ہر قسم کی قانونی کارروائی سے تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔
افسپا کے علاوہ بھی مقبوضہ کشمیر میں متعدد کالے قوانین نافذ ہیں تاکہ حریت پسندانہ سرگرمیوں کو مفلوج اور حریت پسندانہ جذبوں کو کچلاجاسکے۔ ان کالے قوانین میں پبلک سیفٹی ایکٹ، ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ، ٹاڈا، پوٹا، نیشنل سکیورٹی ایکٹ، آفیشل سیکرٹ ایکٹ سمیت دیگر شامل ہیں۔ ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ یعنی ڈی اے اے کے تحت پوری وادی کشمیر اور جموں کے 2اضلاع کو شدید متاثرہ علاقوں میں شامل کرتے ہوئے ہیڈ کانسٹیبل تک کے ملازم کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ جہاں کہیں ضروری سمجھے، مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کرسکتاہے۔ ا س صورت میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں اس سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ پانچ اگست 2019ء کے بعد سے تو صورت حال اور بھی زیادہ دگرگوں ہوچکی ہے۔ وادی میں مسلسل کریک ڈاؤن ہے۔ تجارتی ومعاشی سرگرمیوں، سیاحت اور دیگر پر مکمل پابندی عائد ہے۔ اس طرح کے اقدامات انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہیں لیکن اس کے باوجود مہذب عالمی دنیا کی خاموشی افسوس ناک ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ، اوآئی سی اور دیگر مقتدر ادارے ہر کچھ عرصے بعد کشمیر کی اس صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن ایک مکمل اور ٹھوس انداز میں اقدام اٹھائے جانے کی اشد ضرورت ہے جس کے ذریعے سے بھارت کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں بند کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ان کا پیدائشی حق حق خودارادیت دیے جانے کے لیے انتظامات بروئے کار لائے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button