
وائس آف جرمنی اردو نیوز -پاکستان ڈیسک
اسلام آباد: وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف آج 13 اکتوبر کو مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ پہنچیں گے، جہاں وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی دعوت پر منعقد ہونے والے شرم الشیخ امن سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اس اجلاس کا مرکزی موضوع غزہ کی پٹی میں جاری انسانی بحران کا خاتمہ اور فلسطین-اسرائیل تنازع پر ایک پائیدار امن معاہدے کی توثیق ہے۔
تاریخی اجلاس، عالمی توجہ کا مرکز
مصری صدارتی دفتر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق، 20 سے زائد ممالک کے سربراہانِ حکومت و ریاست شرم الشیخ اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں، جن میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، یورپی یونین، او آئی سی، عرب لیگ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندگان شامل ہیں۔
اجلاس کی صدارت صدر ٹرمپ اور صدر السیسی مشترکہ طور پر کریں گے۔ ذرائع کے مطابق، غزہ میں جنگ بندی، انسانی امداد، شہریوں کا تحفظ، اور فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق ایک متفقہ امن معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے، جس کا خاکہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے گزشتہ اجلاس میں طے پایا تھا۔
پاکستان کی شرکت: فلسطینی عوام سے یکجہتی کا مظہر
پاکستان کے دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی اجلاس میں شرکت پاکستان کے فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت اور ان کے جائز موقف کی غیر متزلزل حمایت کی عکاس ہے۔
بیان میں کہا گیا:
"پاکستان کو امید ہے کہ شرم الشیخ اجلاس مکمل اسرائیلی انخلا، فلسطینی شہریوں کے تحفظ، جبری بے دخلی کے خاتمے، قیدیوں کی رہائی، انسانی بحران کے خاتمے، اور غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے عملی پیش رفت کا باعث بنے گا۔”
وزیراعظم شہباز شریف اجلاس کے دوران متعدد عرب و اسلامی ممالک کے رہنماؤں سے دو طرفہ ملاقاتیں بھی کریں گے، جن میں سعودی عرب، ترکیہ، اردن، قطر اور انڈونیشیا شامل ہیں۔ ان ملاقاتوں میں خطے کی موجودہ صورتحال، فلسطین کے مسئلے پر ہم آہنگی، اور اقتصادی تعاون کے امکانات پر بات چیت ہوگی۔
پس منظر: نیویارک اجلاس سے شرم الشیخ تک
شرم الشیخ امن سربراہی اجلاس ستمبر 2025 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے دوران شروع ہونے والی سفارتی کوششوں کا تسلسل ہے۔ 23 ستمبر کو نیویارک میں ہونے والی اعلیٰ سطحی میٹنگ میں وزیر اعظم شہباز شریف نے دیگر اسلامی ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ شرکت کی تھی، جہاں غزہ کی جنگ بندی اور انسانی بحران کے حل پر مشاورت کی گئی تھی۔
اس اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امن کوششوں کو سراہا گیا تھا، اور تمام ممالک نے ایک جامع اور پائیدار جنگ بندی کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
امن معاہدہ: مشرقِ وسطیٰ میں نئے دور کی امید؟
شرم الشیخ اجلاس میں جس امن معاہدے پر دستخط متوقع ہیں، اس میں درج ذیل نکات شامل ہیں:
فوری جنگ بندی اور اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا
غزہ میں انسانی امداد کی بلا تعطل فراہمی
فلسطینی قیدیوں کی رہائی
جبری بے دخلی کے عمل کی بندش
فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرنا
پاکستان نے اس معاہدے کو مشرق وسطیٰ میں امن، استحکام اور انصاف پر مبنی دیرپا سیاسی حل کے لیے اہم سنگ میل قرار دیا ہے۔
1967 کی سرحدیں، القدس دارالحکومت: پاکستان کا واضح مؤقف
پاکستان نے اس موقع پر ایک بار پھر دو ٹوک موقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام 1967 کی سرحدوں کے مطابق اور القدس الشریف کو دارالحکومت بنا کر ہی ممکن ہے، اور یہی اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عرب امن اقدام کی روح ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق:
"ہمیں امید ہے کہ یہ اجلاس فلسطینی عوام کے لیے آزادی، خودمختاری اور وقار کے ایک نئے باب کا آغاز ہوگا۔”
نتیجہ: پاکستان کی فعال سفارت کاری، امن کی حمایت میں اہم قدم
وزیراعظم شہباز شریف کی شرم الشیخ میں موجودگی، پاکستان کی بین الاقوامی سفارت کاری میں فعال کردار اور فلسطینی کاز سے وابستگی کا مظہر ہے۔ جہاں دنیا کے کئی ممالک مشرق وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے سیاسی عزم دکھا رہے ہیں، وہیں پاکستان کی کوششیں اس مقصد کو آگے بڑھانے میں نہایت اہم تصور کی جا رہی ہیں۔
یہ اجلاس اس بات کی امید دلاتا ہے کہ غزہ کے معصوم شہریوں کو جاری خونریزی، بدحالی اور بے گھری سے نجات دلانے کے لیے عالمی برادری عملی اقدامات پر متفق ہو چکی ہے۔