
عوامی مسائل کے فوری حل کے لیے ہر ڈویژن کو صوبہ بنایا جائے، ماہرین کی تجویز
رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی میں قومی سیمینار "2030 کا پاکستان: چیلنجز، امکانات اور نئی راہیں" کا کامیاب انعقاد
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردونیوز کے ساتھ
رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے قومی سطح کے اہم سیمینار "2030 کا پاکستان: چیلنجز، امکانات اور نئی راہیں” میں ملک کے ممتاز ماہرین تعلیم، پالیسی سازوں اور نجی شعبے سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات نے ملک کی گورننس، تعلیمی بحران، معاشرتی چیلنجز اور آئندہ دہائی کے امکانات پر تفصیل سے اظہارِ خیال کیا۔
اس سیمینار کا اہتمام آل پاکستان پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز کے تعاون سے کیا گیا، جس میں ماہرین نے ملک میں مزید صوبے بنانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، تاکہ گورننس کو بہتر اور عوامی مسائل کو مقامی سطح پر ہی حل کیا جا سکے۔
چھوٹے انتظامی یونٹس سے بہتر حکمرانی کی راہ ہموار ہوگی: مقررین
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے معروف تعلیمی رہنما اور پنجاب گروپ آف کالجز کے چیئرمین میاں عامر محمود نے کہا کہ:
"ریاست کا بنیادی مقصد عوامی فلاح ہے، لیکن پاکستان کے عوام طویل عرصے سے سہولتوں کی کمی اور ناقص انتظامی ڈھانچے کا شکار ہیں۔ ان مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دیا جائے، تاکہ عوام کو اپنے مسائل کے حل کے لیے اسلام آباد یا صوبائی دارالحکومتوں کے چکر نہ لگانے پڑیں۔”
انہوں نے چین، بھارت اور امریکہ کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے چھوٹے انتظامی یونٹس کے ذریعے بہتر گورننس کو ممکن بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ:
"چین میں 31 صوبے، امریکہ میں 50 ریاستیں اور بھارت میں اب 37 ریاستیں ہیں۔ جب کہ پاکستان ابھی تک صرف چار بڑے صوبوں پر اکتفا کیے ہوئے ہے، جس سے گورننس کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔”
اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی وقت کی اہم ضرورت
رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے چانسلر حسن محمد خان نے اپنے خطاب میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کو عوامی فلاح کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا:
"ہمارے والد اور یونیورسٹی کے بانی میجر جنرل (ر) ڈاکٹر محمد ذوالفقار علی خان نے رفاہ یونیورسٹی کی بنیاد رکھتے وقت بے شمار مشکلات کا سامنا کیا، لیکن محنت اور عزمِ صمیم سے ہر مشکل کو عبور کیا۔ یہی پیغام ہم نوجوان نسل کو دینا چاہتے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ:
"یہ نہ پوچھو کہ ملک تمہارے لیے کیا کرتا ہے، بلکہ یہ سوچو کہ تم ملک کے لیے کیا کرسکتے ہو۔”
تعلیم، صحت اور سروس ڈلیوری میں بہتری کا راستہ: نئے صوبے
مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ مزید صوبوں کا قیام صرف انتظامی سہولت نہیں بلکہ عوامی خدمت کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ ملک میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں اور 44 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ صوبائی سطح پر وسائل کی تقسیم اور پالیسی پر عمل درآمد ناکافی ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے میاں عامر محمود نے کہا کہ:
"پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کمزور ادارے، کرپشن اور سیاسی بنیادوں پر ہونے والی غیر منصفانہ منصوبہ بندی ہے۔”
نوجوانوں کی راہنمائی اور کردار سازی پر زور
آل پاکستان پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز کے چیئرمین پروفیسر چوہدری عبدالرحمٰن نے کہا کہ:
"ملک کی ترقی میں سب سے اہم کردار نوجوان نسل کا ہے، لیکن بدقسمتی سے آج کے نوجوانوں میں ہنر کی کمی نہیں، بلکہ مقصدیت کی کمی ہے۔”
انہوں نے 9 مئی 2023 کے واقعات کے بعد کیے گئے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو مثبت راہنمائی اور کردار سازی کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا:
"اساتذہ کو چاہیے کہ وہ سیرتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں طلبہ کو رہنمائی فراہم کریں، تاکہ وہ صرف تعلیمی ہی نہیں، بلکہ اخلاقی طور پر بھی مضبوط قیادت بن سکیں۔”
نتیجہ: نئے صوبے، مضبوط پاکستان
سیمینار میں شریک تمام مقررین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ:
پاکستان میں بہتر حکمرانی کے لیے نئے صوبوں کا قیام ناگزیر ہے۔
اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی سے سروس ڈلیوری، تعلیم، صحت، روزگار اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی بہتر ہوگی۔
ملک میں موجود تعلیمی، معاشی اور سماجی مسائل کے حل کے لیے نوجوان نسل کی شمولیت اور راہنمائی انتہائی اہم ہے۔
سفارشات
سیمینار کے آخر میں درج ذیل سفارشات پیش کی گئیں:
ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دیا جائے۔
مقامی حکومتوں کا نظام مضبوط کیا جائے۔
تعلیم اور صحت کے لیے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔
نوجوانوں کے لیے ہنر مندی اور رہنمائی کے پروگرام شروع کیے جائیں۔
تعلیمی اداروں میں قومی یکجہتی، برداشت اور مقصدیت کو فروغ دیا جائے۔





