
عالمی اسٹرٹیجک توازن میں تبدیلی،جھکاؤ پاکستان کی طرف؟…….سید عاطف ندیم-پاکستان
بدلتے حالات نے خطے میں ایک سنجیدہ بحث کو جنم دیا ہے: "کیا ہم اب بھی محفوظ ہیں؟"
عالمی سیاست میں کچھ واقعات تاریخ کے دھارے کو یکسر بدل دیتے ہیں۔ رواں سال مئی میں نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی طرف سے پاکستان پر کیا گیا بلااشتعال حملہ اور اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر حملے نے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے تزویراتی (اسٹرٹیجک) نقشے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ان دونوں "جارحانہ مہمات” کی ناکامی نے نہ صرف ان ممالک کی ساکھ کو متاثر کیا بلکہ خطے کے دیگر ممالک — خصوصاً خلیجی ریاستوں — کو اپنی خارجہ و دفاعی پالیسیوں پر ازسرِنو غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان پالیسیوں کا پہلا بڑا مظہر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک "اہم دفاعی معاہدے” کی صورت میں سامنے آیا ہے، جو آنے والے وقت میں خطے کی تزویراتی سمت کا تعین کر سکتا ہے۔
مئی 2025 میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے انتخابی وعدوں اور قوم پرستانہ بیانیے کے تحت پاکستان کے خلاف ایک محدود پیمانے پر حملہ کرنے کی منظوری دی۔ تاہم، جیسا کہ تجزیہ کاروں نے پہلے ہی خبردار کیا تھا، یہ حملہ نہ صرف عسکری اعتبار سے ناکام ثابت ہوا بلکہ سیاسی طور پر بھی بھارت کے لیے نقصان دہ رہا۔
حملے کے جواب میں پاکستان نے نہایت مہارت سے جوابی کارروائی کی، جس سے نہ صرف بھارتی افواج کو پسپائی اختیار کرنا پڑی بلکہ یہ پیغام بھی دنیا بھر میں گیا کہ پاکستانی فوج کسی بڑے اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس دشمن کا مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حقیقت پر دنیا سے زیادہ حیرت خود پاکستانیوں کو ہوئی، جو عرصے سے داخلی سیاسی اور معاشی بحرانوں کے باعث اپنی عسکری صلاحیتوں پر شبہ کرنے لگے تھے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو، جو عرصے سے حماس کے خلاف شدید جارحانہ اقدامات کی قیادت کر رہے ہیں، نے دوحہ پر حملہ کر کے اس حد کو بھی پار کر لیا جسے خلیجی ریاستیں کبھی تصور میں بھی نہیں لاتی تھیں۔ حملے کا مقصد حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانا تھا جو ایک خفیہ ملاقات کے لیے دوحہ میں موجود تھے۔ لیکن وہ نہ صرف اس مقصد میں ناکام رہے، بلکہ اس حملے نے قطر سمیت دیگر خلیجی ریاستوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اسرائیلی جارحیت کی کوئی حد نہیں — اور امریکہ جیسی سپر پاور بھی اسے روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔
ان بدلتے حالات نے خطے میں ایک سنجیدہ بحث کو جنم دیا ہے: "کیا ہم اب بھی محفوظ ہیں؟” اور اسی سوال کے جواب میں سعودی عرب اور پاکستان نے ایک نئے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے، جس کا مقصد صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط کرنا نہیں بلکہ پورے خطے میں ایک نئی سلامتی پالیسی کی بنیاد رکھنا ہے۔
یہ معاہدہ، جو اگرچہ کئی ماہ سے زیر غور تھا، لیکن اسرائیلی حملے کے بعد غیر معمولی تیزی سے فائنل کیا گیا۔ دفاعی معاہدے کی تفصیلات اب تک مکمل طور پر ظاہر نہیں کی گئی ہیں — اور غالب امکان ہے کہ یہ جان بوجھ کر خفیہ رکھا گیا ہے — تاہم یہ واضح ہے کہ یہ معاہدہ مستقبل میں کسی بھی بھارتی یا اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک اسٹرٹیجک رکاوٹ بن کر سامنے آ سکتا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان نے ماضی میں سعودی عرب کی جانب سے یمن جنگ میں شرکت کی درخواست مسترد کر دی تھی، جس کے بعد تعلقات میں تناؤ آیا۔ اسی دوران خلیجی ممالک، خصوصاً سعودی عرب، نے بھارت کے ساتھ قریبی معاشی اور سیاسی تعلقات قائم کر لیے، جو پاکستان کے لیے ایک سفارتی دھچکا تھا۔
لیکن اب — اسرائیل اور بھارت کے بڑھتے تعلقات، اور ان کی مشترکہ جارحیت — نے خلیجی ممالک کو سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ بھارت کو ترجیح دینے کی پالیسی انہیں کہیں مہنگی نہ پڑ جائے۔
دوسری طرف ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ خلیجی ریاستوں اور ایران کے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ایرانی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری علی لاریجانی کی ریاض میں میزبانی کی، جو واضح اشارہ ہے کہ سعودی عرب اب ایران کو پہلے جیسا "وجودی خطرہ” نہیں سمجھتا۔
اس تناظر میں اگر پاکستان-سعودی معاہدے کو ایران کے خلاف اتحاد سمجھا جائے تو یہ ایک پرانی سوچ ہوگی۔ اب بات صرف "دشمنوں کے خلاف اتحاد” کی نہیں بلکہ "خود کو محفوظ رکھنے کی مشترکہ حکمت عملی” کی ہے۔
یہ معاہدہ خلیجی ممالک کے لیے ایک ماڈل بن سکتا ہے۔ قطر، جو پہلے ہی ترکی کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا ہے، ممکن ہے مستقبل میں ایک سہ فریقی معاہدہ کرے جس میں پاکستان کو بھی شامل کیا جائے۔
متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اس وقت ایک غیر متوقع کھلاڑی ہے۔ یو اے ای نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کیے ہیں اور خطے میں لیبیا و سوڈان جیسے ممالک میں اپنا اثر قائم کر رکھا ہے۔ تاہم یو اے ای کا کردار محتاط رہے گا — ممکن ہے وہ اس نئے توازن سے خود کو دور رکھے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر ہی انحصار کرے۔
پاکستان میں کچھ حلقے سوال کر رہے ہیں کہ آیا یہ معاہدہ پاکستان کو کسی اور کی جنگ میں دھکیلنے کا ذریعہ تو نہیں؟ یا اس کا اصل ہدف ایران ہے؟ لیکن موجودہ علاقائی سیاسی فضا ان خدشات کو کمزور کرتی ہے۔ پاکستان کو براہِ راست کسی جنگ میں دھکیلنے کا کوئی واضح امکان نہیں، بلکہ یہ معاہدہ ایک اسٹرٹیجک بفر ہے — جو بھارت جیسے مخالف کو دوبارہ حملے سے پہلے کئی بار سوچنے پر مجبور کرے گا۔
مودی اور نیتن یاہو کی اسٹرٹیجک غلطیوں نے خطے میں ایک نئی صف بندی کو جنم دیا ہے۔ پاکستان، جو پچھلے چند سال سے سفارتی تنہائی کی شکایات کا شکار تھا، اب ایک بار پھر ایک اہم علاقائی کھلاڑی کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
پاکستان-سعودی دفاعی معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی زندگی دے گا بلکہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے تزویراتی مستقبل کا بھی اہم تعین کرے گا۔

