
شامی مہاجرین کی عجلت میں وطن واپسی غیر ضروری ہو گی اور وہ ’’وہاں محفوظ ہیں۔‘‘ الشیبانی
جرمنی میں مقیم شامی باشندوں کی موجودہ تعداد تقریباﹰ ایک ملین بنتی ہے۔ انقریب نو لاکھ 75 ہزار شامی شہریوں کی بڑی اکثریت مہاجرین کے طور پر جرمنی آئی تھی۔
برلن: طویل خانہ جنگی سے تباہ حال مشرق وسطیٰ کے ملک شام کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ اسعد الشیبانی نے کہا ہے کہ جرمنی میں پناہ گزین لاکھوں شامی مہاجرین کی عجلت میں وطن واپسی غیر ضروری ہو گی اور وہ ’’وہاں محفوظ ہیں۔‘‘
شامی دارالحکومت دمشق سے بدھ 15 جنوری کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق شامی وزیر خارجہ الشیبانی نے کہا کہ ماضی میں شام میں خونریز خانہ جنگی کے باعث یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں پناہ لینے والے لاکھوں شامی باشندے وہاں محفوظ ہیں اور انہیں بہت جلد بازی میں ابھی شام نہیں لوٹنا چاہیے۔
اسعد الشیبانی نے یہ بات جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ایک ایسے وقت پر کہی جب وہ شام کے دورے پر گئی ہوئی جرمنی کے ترقیاتی امور کی وفاقی وزیر سوینیا شُلسے سے ملاقات کرنے والے تھے۔اس گفتگو میں الشیبانی نے کہا کہ جن شامی مہاجرین کو جرمنی نے اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے، وہ دنیا کے دیگر خطوں اور ممالک میں پھیلے ہوئے شامی پناہ گزیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر حالات میں ہیں۔
جرمنی میں مقیم شامی باشندوں کی موجودہ تعداد تقریباﹰ ایک ملین بنتی ہے۔ انقریب نو لاکھ 75 ہزار شامی شہریوں کی بڑی اکثریت مہاجرین کے طور پر جرمنی آئی تھی۔
ان کی اپنے وطن سے رخصتی کی وجہ وہ خونریز خانہ جنگی بنی تھی، جو ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصے تک جاری رہی تھی اور جس میں مجموعی طور پر لاکھوں انسان مارے گئے تھے۔
وفاقی جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر ابھی حال ہی میں یہ تجویز دے چکی ہیں کہ جرمنی میں مقیم شامی پناہ گزینوں کو یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ حسب خواہش ایک بار اس طرح واپس اپنے وطن جا کر لوٹ سکیں کہ یوں ان کی جرمنی میں پناہ گزینوں کی موجودہ حیثیت متاثر نہ ہو۔
وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق وہ شامی مہاجرین کو یہ اجازت دیے جانے کی حامی اس لیے ہیں کہ ایسے شامی باشندے واپس جا کر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں کہ ان کے ملک میں موجودہ مجموعی صورت حال کیسی ہے۔
برلن میں وفاقی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کے مطابق نینسی فیزر کی اس تجویز کی روشنی میں اب متعلقہ حکام کے لیے ان ہدایات کو حتمی شکل دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، جنہیں ایسے شامی مہاجرین کی سفری درخواستوں پر فیصلے کرنا ہوں گے، جو واپس شام جا کر وہاں کے موجودہ حالات کا ذاتی طور پر جائزہ لینا چاہتے ہوں۔