جنرل

امریکہ میں کورونا وائرس: غیر ملکی طبی ماہرین جو سخت قوائد کے باعث کووڈ 19 کے خلاف لڑائی میں ہاتھ نہیں بٹا سکتے

[ad_1]

ڈاکٹر حنا چاولہتصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

امریکہ میں جہاں ایک جانب صحت کا نظام کورونا وائرس کی وبا کے بوجھ تلے دبا چلا جا رہا ہے تو وہیں صحت کے شعبے میں کام کرنے والے کئی غیر ملکی نژاد ڈاکٹرز یہ شکایت کر رہے ہیں کہ ملک کی سخت ویزا پالیسیوں نے ان کو اس لڑائی میں شامل ہونے سے روک رکھا ہے۔

ڈاکٹر ابھیناو سنگھ سلیپ نیورولوجی یا نیند کے امراض کے ماہر ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ رات کی نیند پوری کرنے کا اچھی صحت سے تعلق بخوبی سمجھتے ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر مرزا بیگ گردے کے امراض کے ماہر ہیں۔

دونوں انڈین نژاد ہیں اور ایچ ون بی ویزا پر امریکہ آئے ہوئے ہیں۔ وہ نیو یارک اور ایسے دیگر علاقوں تک رسائی چاہتے ہیں جو وبا سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

یہ خبر شائع ہونے تک امریکہ میں اموات کی کل تعداد 45 ہزار سے زیادہ ہو چکی اور متاثرین آٹھ لاکھ سے زیادہ ہیں۔ نیو یارک، جو کہ ملک کی سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاست ہے، میں تقریباً 15 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

سد

کورونا وائرس: امریکی ہسپتال کی ایمرجنسی میں کیا ہو رہا ہے؟

اپنے پیاروں کی آخری رسومات میں شرکت نہ کرنے والوں کا دکھ

کورونا وائرس: وہ شہر جہاں کئی ممالک سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں

خنزیر کے گوشت کی فیکٹری: امریکہ میں کورونا کی وبا کا مرکز کیسے بنی؟

سد

تاہم امریکی ریاست انڈیانا کے شہر انڈین ایپولیس میں اپنے کلینک سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ابھیناو کہتے ہیں: ’ہم جیسے قابل ڈاکٹروں کو، جو نیو یارک اور ایسے دیگر علاقوں میں جا کر ہاتھ بٹانا چاہتے ہیں، اپنی جائے رہائش تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ ہمارا ویزا اس کی اجازت نہیں دیتا۔‘

ان کے مطابق ایچ ون بی ویزے کا اجرا صرف آجر کے کہنے پر کیا جاتا ہے۔ ’میں صرف ایک مخصوص مقام پر ایک مخصوص ادارے کے لیے کام کر سکتا ہو۔ اگر میں اپنی نوکری تبدیل کرتا ہوں تو مجھے نوکری دینے والوں کو میرے لیے نیا ویزا مانگنا پڑے گا۔‘

ڈاکٹر بیگ بھی مایوس ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’ہم مدد کر سکتے تھے، ہاتھ بٹا سکتے تھے، لیکن نہیں۔‘

ڈاکٹر ابھیناو

Image caption

ڈاکٹر ابھیناو 2012 سے گرین کارڈ کے منتظر ہیں۔ وہ یونیورسٹی کے بعد سے امریکہ میں ہی ہیں۔ اس دوران انھوں نے اعلی تعلیم اور ریسرچ مکمل کر کے 2010 سے ایچ ون بی ویزا پر امریکہ میں رہ رہے ہیں

ویزے کے مسائل

ماہرین کے مطابق ویزا قوانین کے تحت اگر کسی ملازم کو کسی اور مقام پر ٹرانسفر بھی کرنا ہو تو ویزے میں ترمیم کروانا ہوتی ہے۔

امریکہ میں ایچ ون بی ویزا ایسے افراد کو دیا جاتا ہے جو اپنے شعبے میں خاص مہارت رکھتے ہیں اور انھیں عارضی طور پر اپنا کام جاری رکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہ ویزا ہر تین برس بعد دوبارہ حاصل کرنا پڑتا ہے۔

ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق سنہ 2017 میں حکومت کو اس ویزے سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے 75 فیصد سے زیادہ افراد کا تعلق انڈیا سے تھا۔

ایچ ون بی ویزا کسی خاص شعبے میں مہارت رکھنے والے فرد کو امریکہ میں قانونی طور پر مستقل سکونت اختیار کرنے کے لیے درخواست دینے کی اجازت دیتا ہے، جسے گرین کارڈ بھی کہتے ہیں۔ لیکن یہ مالک کی اجازت سے مشروط ہے اور یہ مستقل رہائش بھی مشروط ہوتی ہے۔

ڈاکٹر ابھیناو 2012 سے گرین کارڈ کے منتظر ہیں۔ ’اگر مجھے کچھ ہو جائے یا میں معذور ہو جاؤں تو میری بیوی کو غیر قانونی رہائشی قرار دیا جا سکتا ہے اور 18 سال یہاں گزارنے کے بعد انھیں ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ مجھے تو اس دن کا ڈر لگا رہتا ہے۔‘

وہ یونیورسٹی کے بعد سے امریکہ میں ہی ہیں۔ اس دوران انھوں نے اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ مکمل کر کے اب امراض نیند کے ماہر کے طور پر 2010 سے ایچ ون بی ویزا پر امریکہ میں رہ رہے ہیں۔

’کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اس سے بہتر ہے کہ میں چھتیس گڑھ میں اپنی نانی کے ہاں چلا جاؤں۔ وہاں معیاری کلینک اور قابل ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’جب ہم یہاں آئے تھے تو ہمارا خیال تھا کہ ہم ایک ایسے ملک جا رہے ہیں جہاں مواقع اور وسائل ہیں اور میرٹ کا بول بالا ہے۔ لیکن یہاں 18 سال گزارنے کے بعد ابھی بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم قطار میں ہی لگے ہوئے ہیں اور اپنی باری کا انتظار کیے جا رہے ہیں۔۔۔ یہاں آپ کی محنت کی قدر نہیں کی جاتی ہے۔‘

ڈاکٹر بیگ کی کہانی بھی زیادہ مختلف نہیں۔ کورونا وائرس مریضوں کے گردوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور ان جیسے ماہرین کی نیویارک جیسے شہر میں بہت مانگ ہے۔ تاہم وہ بھی دس سال سے گرین کارڈ کا انتظار کر رہے ہیں اور اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔

ایمبولینستصویر کے کاپی رائٹ
AFP

Image caption

بھارتی نژاد ڈاکٹروں کی تنظیم امریکن ایسوسی ایشن آف فزیشنز آف انڈین اورجن نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ ریاستیں اگر لائسنس کی شراط میں نرمی لائیں تو صفِ اول پر کام کرنے والے طبی عملے کی مدد کے لیے مزید اہلکار لائے جا سکتے ہیں

مدد کی ضرورت

امریکہ کے سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول نے نو اپریل کو بتایا تھا کہ ملک میں صحت کے شعبے سے منسلک کم از کم نو ہزار افراد میں کورونا کی تصدیق ہو چکی ہے اور انھیں ڈر ہے کہ اس تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا رہے گا۔

لیکن اگر آپ کسی اور ملک میں پیدا ہوئے ہیں تو پہلے آپ کو ویزا کے سخت ترین قوائد کو پورا کرنا ہو گا اور پھر متعلقہ ریاست میں میڈیکل لائسنس حاصل کرنا ہو گا۔ ساتھ یہ حقیقت بھی شامل کر لیں کہ آپ اس ملک میں عارضی اجازت پر رہ رہے ہیں تو ذہنی دباؤ بڑھتا چلا جائے گا۔

بھارتی نژاد ڈاکٹروں کی تنظیم امریکن ایسوسی ایشن آف فزیشنز آف انڈین اورجن نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ ریاستیں اگر لائسنس کی شراط میں نرمی لائیں تو صفِ اول پر کام کرنے والے طبی عملے کی مدد کے لیے مزید اہلکار لائے جا سکتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ ڈاکٹر خود کسی بیماری کا شکار ہو جائیں تو انھیں ملک بدر کیا جا سکتا ہے اور ریاستوں سے اپنے قوائد میں نرمی لانے کی اپیل کی۔

کچھ ریاستوں کا جواب مثبت تھا: نیویارک کے گورنر کومو نے ڈاکٹروں اور نرسوں کے لیے ایک قومی اپیل کی اور چند دیگر ریاستوں کے گورنروں نے بھی کچھ قوائد میں نرمی کی ہے۔ تاہم غیر ملکی ڈاکٹروں پر لگی قدغن برقرار ہیں۔

گرین کارڈ کا انتظار

پاکستان جیسے ملکوں کی نسبت انڈیا اور چین جیسے بڑے ممالک کے باشندوں کے لیے گرین کارڈ کا حصول زیادہ مشکل بھی ہے اور اس میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے۔

سفارت خانہتصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

امیگریشن وکیل این بریڈمس کے مطابق دنیا کے ہر ملک کا ایک کوٹہ طے اور اسی کوٹے کے حساب سے گرین کارڈ جاری کیے جاتے ہیں۔ امیگریشن پالیسی کے ماہر ڈیوڈ بیئر کے مطابق اس وقت حکومت کے پاس 10 لاکھ سے زیادہ درخواستیں ہیں اور 2030 تک یہ تعداد 25 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔

ڈیوڈ بیئر کے مطابق ان 10 لاکھ میں سے 75 فیصد کا تعلق انڈیا سے ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ستم ظریفی یہ ہے کہ تقریباً دو لاکھ درخواست گزار گرین کارڈ ملنے سے پہلے ہی بڑھاپے کی وجہ سے انتقال کر جائیں گے۔حکومت 1990 سے لے کر اب تک سالانہ صرف ایک لاکھ 40 ہزار H-1B ویزے جاری کرتی ہے لیکن حالیہ برسوں میں اس کی مانگ میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔‘

فیڈریشن آف سٹیٹ میڈیکل بورڈز کی جانب سے 2018 میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں نو لاکھ 85 ہزار ڈاکٹر ہیں اور ان میں سے 23 فیصد دوسری ممالک سے پڑھے ہوئے ہیں۔

یہ تقریباً 226000 بنتے ہیں، جن میں سے 23 فیصد کا تعلق انڈیا یا پاکستان سے ہے۔

غیر ملکی نژاد ڈاکٹرز امریکہ میں ایچ ون بی یا جے ون ویزے پر آتے ہیں جس کے مطابق وہ یہاں مستقل سکونت اختیار نہیں کر سکتے۔ یہ ویزے امریکی قوانین کے مطابق انھیں ایکسینج پروگرام کے تحت امریکہ میں کام کرنے یا تعلیم سرگرمی کے لیے دیے جاتے ہیں۔

امریکہ میں ایسے علاقوں میں تقریباً 21 ملین افراد رہتے ہیں جہاں غیر ملکی تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی تعداد مجموعی معالجین سے کم از کم آدھی کے برابر ہے اور ان میں سے بیشتر ڈاکٹرز دیہی برادریوں کو اہم طبی خدمات فراہم کرتے ہیں۔

انڈیا اور پاکستان میں سینکڑوں میڈیکل کی تعیلم مکمل کرنے والے افراد جو ان معاشروں میں اپنی خدمات انجام دے سکتے ہیں امریکی ہسپتالوں سے تربیت کی منظوری ملنے کے بعد امریکی ویزا انٹرویو کے منتظر ہیں۔ امریکہ میں ہسپتالوں سے منظوری ملنے کو ریزیڈینسی کہا جاتا ہے۔

قانونی طور پر ایچ ون بی یا جے ون ویزوں کے حصول کے لیے انٹرویو ذاتی حیثیت میں لیے جاتے ہیں لیکن سفارتخانے کا بیشتر عملہ واپس اپنے ملک آ چکا ہے۔

تقریباً دو سو کے قریبی پاکستانی ڈاکٹرز جنھیں مختلف ہپستالوں میں کام کرنے کی منظوری مل گئی ہے ویزا انٹرویو کے منتظر ہیں۔

امریکہ اور کینیڈا میں تقریباً 18 ہزار پاکستانی ڈاکٹروں کی نمائندہ ایسوسی ایشن آف فزیشنز آف پاکستانی ڈیسنٹ آف نارتھ امریکہ (آپنا) کی صدر ڈاکٹر ناہید عثمانی کہتی ہیں کہ ’ہم نے حکام سے درخواست کی ہے کہ سکائپ یا زوم کے ذریعے انٹرویو لے لیے جائیں ورنہ یہ ڈاکٹرز وقت پر تربیت سازی کے کے لیے ہسپتالوں کو جوائن نہیں کر سکیں گے۔‘

خطتصویر کے کاپی رائٹ
AMA US

ڈاکٹر عثمانی کہتی ہیں کہ ان کی برادری کی جانب سے ویزا کے قواعد کے متعلق ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے کہ جس میں انھیں کورونا کے خلاف لڑنے سے منع کیا گیا ہوں۔

انھوں نے مزید کہا کہ تقریباً ڈاکٹروں کی تنظیم آپنا کے ایک چوتھائی رکن ڈاکٹرز نیو یارک میں رہتے ہیں اور ان میں سے درجنوں کورونا سے متاثر بھی ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر عثمانی نے اس سلسلے میں حکام سے رابطہ کیا ہے لیکن اب تک اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن نے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کو خط لکھا ہے کہ وہ جولائی سے شروع ہونے والے امریکی ریزیڈنسی پروگراموں میں شامل ہونے والے معالجین کے لیے سفارت خانوں میں ویزا عمل کو کھولیں۔

جس کے جواب میں دفتر خارجہ کے حکام نے مبہم الفاظ میں کہا ہے کہ اس وقت وہ سب سے زیادہ ضروری ویزا درخواستوں پر کام کر رہے ہیں۔

’بہترین معیار‘

ہارورڈ میڈیکل سکول کے شعبہ ہیلتھ پالیسی کے پروفیسر ڈاکٹر انوپم جینا کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق میں یہ کہا گیا ہے کہ غیر ملکی نژاد ڈاکٹرز صحت کی شعبے میں قابلیت، معیار اور اہلیت میں امریکی ڈاکٹروں کے شانہ بشانہ ہیں۔

ڈاکٹر جینا نے مجھے بتایا کہ ’ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کسی غیر ملکی ڈاکٹر کے زیر علاج مریضوں میں اموات کی شرح امریکی ڈاکٹر کے زیر علاج مریضوں کی اموات کی شرح سے تھوڑی کم ہے۔‘

ایک اور تحقیق میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی ڈاکٹرز ایک قابل محقق بنتے ہیں۔

ہسپتالتصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

وہ کہتے ہیں کہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان غیر ملکی ڈاکٹروں کو مسابقتی ماحول میں قائم رہنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ وہ کیا چیز ہے جو کسی کو اپنا کنبہ، ثقافتاور ایک ایسے ملک چھوڑنے پر مجبورکرتی ہے جس سے وہ واقف ہوں اور دنیا میں ممکنہ طور پر وہ ایک مختلف ماحول میں چلے جائیں جہاں نہ ان کے دوست ہوں نہ کوئی ساتھی؟ یہ ان لوگوں کا کردار ہے جو ان سے ہر جگہ اچھا کام کرواتا ہے۔‘

مسئلے کے قانونی حل کی کوششیں

اس مسئلے کے قانونی حل کے لیے کوشش جاری ہے۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مہنگی امیگریشن فیس کے معاملے پر سیاسی بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے۔

تاہم ابھیناو سنگھ اور مرزا بیگ جیسے پیشہ ور ڈاکٹروں کے لیے یہ آسان فیصلہ نہیں ہے کہ آیا وہ امریکہ میں ہی مسلسل غیر یقینی کی صورتحال میں رہیں یا وہ واپس انڈیا آ جائیں اور اپنی اور اپنے خاندان کے لیے ایک نئی زندگی کا آغاز کریں۔

۔

[ad_2]
Source link

International Updates by Focus News

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button