
پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ کراچی پورٹ سے تاحال ٹرانس شپمنٹ کا سلسلہ شروع نہیں ہو سکا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کی بندرگاہ پر بڑے جہازوں کے لنگر انداز ہونے کی گنجائش موجود ہے اگر حکومت اس جانب توجہ دے تو دنیا بھر سے بڑے جہاز کراچی میں لنگر انداز ہو سکتے ہیں
قدرتی وسائل سے مالا مال پاکستانی بندرگاہیں انتظامیہ کی توجہ کی منتظر ہیں، فیصلہ سازی میں سستی یا پھر حکام بالا کی مبینہ غفلت اور عدم توجہی کی وجہ سے ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ کراچی پورٹ سے تاحال ٹرانس شپمنٹ کا سلسلہ شروع نہیں ہو سکا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کی بندرگاہ پر بڑے جہازوں کے لنگر انداز ہونے کی گنجائش موجود ہے اگر حکومت اس جانب توجہ دے تو دنیا بھر سے بڑے جہاز کراچی میں لنگر انداز ہو سکتے ہیں اور چھوٹے جہازوں کے ذریعے سامان دوسرے ممالک بھیج کر ملک کے لیے زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔
سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے مشیر برائے بحری امور رہنے والے محمود مولوی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی بندرگاہ میں بڑے جہازوں کے آنے کی گنجائش موجود ہے۔ پاکستان کی یہ بندرگاہ پڑوسی ملک انڈیا اور بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک کی بندرگاہوں کی طرح ہے، جہاں باآسانی بڑے جہاز لنگر انداز ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان ٹرانس شپمنٹ کا آغاز کرے تو ملکی خزانے کو بہت فائدہ ہو گا۔
محمود مولوی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹرانس شپمنٹ کے لیے پالیسی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ جب تک سسٹم سے رکاوٹیں دور نہیں کی جائیں گی اس وقت تک ٹرانس شپمنٹ کی راہ ہموار نہیں ہو گی۔
’پورٹ اینڈ شپنگ کے شعبے کو ون ونڈو آپریشن کرنا ہو گا۔ ایسا نظام لانا ہو گا جس سے آسانیاں ہو اور دوسرے ممالک سے جہاز کراچی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہو سکیں اور یہاں سے دیگر ممالک کے لیے چھوٹے بحری جہازوں کا نظام بن سکے۔‘