جنرل

جب لندن میں چھ دن تک ایرانی سفارتخانے کا محاصرہ ہوا

[ad_1]

A hostage scrambles to safetyتصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

40 برس قبل آج یعنی 30 اپریل کو لندن کے علاقے کینزنگٹن میں واقع ایرانی سفارتخانے پر مسلح افراد نے حملہ کر کے سفارتخانے کی عمارت کا محاصرہ کر لیا تھا۔

چھ دن کے محاصرے کے بعد بالآخر برطانیہ کی سپیشل ائیر سروس (ایس اے ایس) فورس نے مسلح دہشت گردوں سے سفارتخانے کا محاصرہ چھڑوایا تھا۔

One of the hostages makes his escapeتصویر کے کاپی رائٹ
F Zabci/Shutterstock

30 اپریل 1980 میں ایرانی سفارتخانے پر حملے کرنے والے دہشت گرد سنہ 1979 میں اقتدار میں آنے والے ایرانی رہنما آیت اللہ خمینی کے مخالف گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔

Police outside the embassyتصویر کے کاپی رائٹ
N. Beattie/Evening Standard/Hulton Archive/Getty I

ان حملہ آوروں نے چھ روز تک جاری رہنے والے محاصرے میں 26 افراد کو یرغمال بنایا تھا اور ان کا مطالبہ تھا کہ ایران میں قید 91 سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے اور برطانیہ سے یرغمالیوں کے ساتھ فرار ہونے کے لیے ہوائی جہاز دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیے

بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملہ

عراق کے علاقے عین الاسد میں حملے کی تصویری جھلکیاں

مزار شریف کے فوجی اڈے پر حملے کی تصاویر

سری لنکا میں ہونے والے حملوں کی تصویری جھلکیاں

آپ کو اس تصویر میں مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن سفارتخانے کی عمارت سے پیچھے ہٹتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

A negotiator walks away from the embassyتصویر کے کاپی رائٹ
PA Media

محاصرے کے چھٹے روز ایک مسلح حملہ آور نے ایرانی پریس اتاشی عباس لاواسانی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا اور اس کی لاش کو سفارتخانے کے عمارت کے باہر پھینک دیا تھا۔

Mr Whitelaw at the sceneتصویر کے کاپی رائٹ
PA

جس کے جواب میں برطانیہ کے اس وقت کے وزیر داخلہ ولیم وائٹ لا نے برطانیہ کی کمانڈو فورس ایس اے ایس کو سفارتخانے کو حملہ آوروں کے محاصرہ سے چھڑوانے کا حکم دیا تھا۔

برطانوی وزیر داخلہ سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا حکم ملنے کے تقریباً 20 منٹ بعد سپیشل فورس کے دستے سفارتخانے کی عمارت میں پہنچ گئے تھے اور یہ تمام کارروائی میڈیا کے کیمروں نے دکھائی تھی۔

SAS move inتصویر کے کاپی رائٹ
F Zabci/Shutterstock

اس کارروائی کے دوران سینکڑوں اخباری نمائندے اور کیمرہ مین موقع پر موجود تھے جبکہ لاکھوں افراد نے ان مناظر کو براہ راست اپنی ٹی وی سکرینوں پر دیکھا تھا۔

Reporters on the sceneتصویر کے کاپی رائٹ
PA Media

تقریباً 15 منٹ بعد برطانیہ کی سپیشل فورس نے ایرانی سفارتخانے کا محاصرہ ختم کروا لیا تھا۔ اس کارروائی میں دو مسلح حملہ آور ہلاک ہوئے تھے جبکہ ایک کو زندہ گرفتار کیا گیا تھا۔

SAS enter the buildingتصویر کے کاپی رائٹ
PA Media

ان 26 یرغمالیوں میں سے ایک سفارتی حفاظتی عملے کے رکن پی سی ٹریور لاک بھی تھے۔ جو سفارتخانے کے باہر پہرہ دے رہے تھے۔ انھیں اس تصویر میں مذاکراتی ٹیم کے ساتھ بات کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

Pc Trevor Lockتصویر کے کاپی رائٹ
Brendan Monks/Daily Mirror/Mirrorpix/Getty Images

برطانیہ کے اس وقت کے وزیر داخلہ ولیم وائٹ لا نے کہا تھا کہ ’انھیں حملہ آوروں کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے پر افسوس ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔‘

تاہم ایران نے لندن میں اپنے سفارتخانے کا محاصرہ چھڑوانے کے لیے برطانیہ کی سپیشل فورس کی کارروائی کی حمایت کی تھی لیکن دونوں ممالک کے درمیان سفارتخانے کی عمارت کو پہنچنے والے نقصان کے زرتلافی معاوضہ کو طے کرنے میں 13 برس لگے۔

Supporters of the Ayatollah Khomeini marching near the embassy, 1 May 1980.تصویر کے کاپی رائٹ
Kent Gavin/Daily Mirror/Mirrorpix/Getty Images

برطانوی حکومت نے ایرانی سفارتخانے کی عمارت کو پہنچنے والے نقصان کی رقم ادا کی تھا جس کے بعد ایران نے اپنے ملک میں موجود برطانوی سفارتخانے کی مرمت کروائی تھی۔

The embassyتصویر کے کاپی رائٹ
Ray Moreton/David Levenson/Keystone/Getty Images

۔

[ad_2]
Source link

International Updates by Focus News

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button