مشرق وسطیٰ

سمتھ فیلڈ ’پورک‘ پلانٹ: امریکہ میں بڑے پیمانے پر کورونا وائرس پھیلنے کی کہانی جو آپ نے پہلے کبھی نہ سنی ہو گی

[ad_1]

Graphic of factory with viruses

امریکہ میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی اتنی بڑی تعداد ساؤتھ ڈکوٹا کے ایک چھوٹے سے کونے سے کیسے سامنے آئی؟ پورک (خنزیر) پراسیسنگ فیکٹری میں انفیکشن کیسے پھیلی اور ایسے کئی سوالات کے جواب ابھی ملنا باقی ہیں جیسا کہ کمپنی نے عملے کے تحفظ کے لیے کیا کیا؟

25 مارچ کی دوپہر، جولیا نےاپنا لیپ ٹاپ کھولا اورایک جعلی فیس بک اکاؤنٹ پر لاگ اِن ہو گئیں۔ انھوں نے یہ اکاؤنٹ مڈل سکول میں بنایا تھا تاکہ خفیہ طور پر اپنے پسندیدہ لڑکوں پر نظر رکھ سکیں۔

لیکن اب اتنے سال بعد یہ اکاؤنٹ ایک بہت سنجیدہ مقصد کی تکمیل میں ان کی مدد کرنے والا تھا۔

جولیا نے مقامی اخبار ’ارگس لیڈر‘ کے فیس بک اکاؤنٹ ’ارگس 911‘ کو اپنے اکاؤنٹ سے یہ پیغام بھیجا ’براہ مہربانی کیا آپ پتہ کر سکتے ہیں کہ سمتھ فیلڈ میں کیا ہو رہا ہے؟ وہاں ایک شخص میں کووِڈ 19 کی تصدیق ہوئی ہے لیکن وہ پھر بھی سمتھ فیلڈ کو کھلا رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘

’سمتھ فیلڈ‘ سے جولیا کا مطلب سمتھ فیلڈ فوڈز کا پورک پروسیسنگ پلانٹ تھا جو ان کے قصبے سُو فالز (جنوبی ڈکوٹا) میں واقع ہے۔

بگ سُو دریا کے کنارے ایک وسیع و عریض آٹھ منزلہ سفید عمارت میں بنی یہ فیکٹری امریکہ میں نویں سب سے بڑی ایسی سہولت ہے جہاں خنزیر کے گوشت سے مختلف اشیا بنائی جاتی ہیں۔ عام دنوں میں یہاں روزانہ 19500 خنزیروں کو ٹکڑوں میں کاٹ کر ان کا قیمہ، ہاٹ ڈاگز، بیکن اور ہیم بنائے جاتے ہیں۔

اس فیکٹری میں 3700 ملازمین کام کرتے ہیں اور یہ شہر میں روزگار فراہم کرنے والا چوتھا بڑا مرکز ہے۔

آرگس 19 اکاؤنٹ نے جواب میں جولیا کو لکھا ’ٹِپ کے لیے آپ کا شکریہ۔ جس ملازم کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا، وہ کیا کام کرتے ہیں؟‘

جولیا نے لکھا ’مجھے معلوم نہیں ہے۔‘

آرگس نے جواب دیا ’اچھا، شکریہ۔ ہم آپ سے پھر رابطہ کریں گے۔‘

اگلے دن صبح 7:35 پر ارگس لیڈر نے اپنی ویب سائٹ پر یہ کہانی شائع کی ’سمتھ فیلڈ فوڈز کے ملازم میں کورونا وائرس کی تصدیق۔‘

کورونا بینر

کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟

دنیا میں کورونا کے مریض کتنے اور کہاں کہاں ہیں؟

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کورونا وائرس: مختلف ممالک میں اموات کی شرح مختلف کیوں؟

کورونا وائرس: وینٹیلیٹر کیا ہوتا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟

کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں

لائن

رپورٹر نے کمپنی کے ترجمان کے ذریعے تصدیق کی کہ واقعتاً ایک ملازم میں کورونا وائرس کی تصدیق کی گئی تھی اور انھیں 14 دن کے قرنطینہ میں رکھا گیا تھا۔

کمپنی کے ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ اس ملازم کے کام کی جگہ اور دیگر جگہوں کو ’اچھی طرح سے جراثیم سے پاک کر دیا گیا تھا‘، لیکن یہ پلانٹ جسے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ’انفراسٹرکچر انڈسٹری کا اہم حصہ‘ سمجھا جاتا ہے، مکمل طور پر چلتا رہے گا۔

فیکٹری کو کھلا رکھنے کے فیصلے کی وضاحت کے لیے 19 مارچ کو جاری کردہ ایک آن لائن ویڈیو بیان میں سمتھ فیلڈ کے سی ای او کینتھ سلیون کا کہنا تھا کہ ’کھانا ہماری زندگی کا ایک لازمی جزو ہے اور 40 ہزار افراد پر مشتمل ہماری امریکی ٹیم کے اراکین، ہزاروں امریکی کسان خاندان اور ہماری سپلائی چین کے بہت سارے دوسرے شراکت دار۔۔۔ یہ سب کووڈ 19 سے نمٹنے کے لیے ہماری قوم کے ردعمل کا ایک اہم حصہ ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’ہم اپنے ملازمین اور خریداروں کی صحت و تندرستی کو یقینی بنانے کے لیے انتہائی احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔‘

لیکن جولیا گھبرا گئیں۔

یہ بات یاد کرتے ہوئے وہ بتاتی ہیں کہ ’اس سے پہلے بھی افواہیں آتی رہی ہیں۔ میں نے خاص طور پر سمتھ فیلڈ کے لوگوں کے ہسپتال داخل ہونے کے بارے میں سنا ہے۔‘

جولیا فیکٹری میں کام نہیں کرتیں۔ ان کی عمر 20 اور 30 سال کے درمیان ہے اور یونیورسٹی جاتی ہیں۔ کووڈ 19 کے کی وجہ سے یونیورسٹی بند ہونے کے سبب وہ گھر پر ہیں۔ ان کے والدین طویل عرصے سے سمتھ فیلڈ میں ملازمت کرتے ہیں اور وہ اپنے والدین کے بہت قریب ہیں۔ جولیا کے والدین نے انھیں بتایا کہ ان دنوں فیکٹری میں کیا ہو رہا ہے۔

جولیا فیکٹری ملازمین کے بالغ بچوں میں سے ایک ہیں۔ ان میں سے بہت سے تارکین وطن افراد کی پہلی نسل ہیں اور کئی خود کو سمتھ فیلڈ کے بچے کہتے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے اس وبا کے پھیلاؤ پر بات کرنے کی ٹھانی ہے۔

جولیا بتاتی ہیں ’میرے والدین انگریزی نہیں جانتے۔ وہ اپنی وکالت نہیں کر سکتے ہیں۔ کسی کو ان کے لیے آواز اٹھانا ہو گی۔‘

سو فالز میں موجود کئی دوسرے خاندانوں کی طرح جولیا کے خاندان نے بھی خود کو بیماری سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ سال کی جتنی چھٹیاں رہتی تھیں وہ انھوں نے گھر رہنے کے لیے استعمال کیں۔ کام سے آنے کے بعد وہ اپنے جوتے باہر اتارتے اور سیدھے نہانے کے لیے جاتے، سر اور ناک ڈھانپنے کے لیے جولیا ان کے لیے والمارٹ سٹور سے حفاظتی سامان خرید کر لائی تھیں۔

سب کو صحتمند رکھنے کے لیے جولیا نے میڈیا کو آگاہ کرنے کا سوچا تاکہ عوامی دباؤ کے ذریعے وہ پلانٹ کو بند کروا کے والدین کو گھر پر رکھ سکیں۔

لیکن اس سب کے برعکس اگلے تین ہفتے انتہائی پریشانی اور اضطراب کی کیفیت میں گزرے۔ ان کی والدہ اور والد نوکری کھونے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ اس لیے وہ دونوں مسلسل تین ہفتوں تک ایک ایسی فیکٹری جا کر کام کرتے رہے جس کے بارے میں انھیں علم تھا کہ یہاں وائرس موجود ہو سکتا ہے۔

وہ پروڈکشن لائنوں پر اپنے ساتھیوں سے ایک فٹ سے بھی کم فاصلے پر کھڑے ہو کر کام کرتے تھے۔ ملازمین سے بھرے لاکر روم، چلنے کی جگہوں اور کیفیٹیریا وغیرہ ہر جگہ سے ان کا گزر ہوتا۔

اس دوران سمتھ فیلڈ کے ملازمین میں کوورنا وائرس سے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 80 سے 190 اور پھر 238 تک جا پہنچی۔

15 اپریل کو جب سمتھ فیلڈ بالآخر ساؤتھ ڈکوٹا کے گورنر آفس کے دباؤ پر بند ہوا اس وقت تک یہ پلانٹ امریکہ میں کوورنا وائرس کا نمبر ون ہاٹ سپاٹ بن چکا تھا۔ سمتھ فیلڈ کے ملازمین اور ان کے ذریعے کووڈ 19 سے متاثرہ افراد کی تعداد 644 تک جا پہنچی تھی۔

مجموعی طور پر ریاست میں سمتھ فیلڈ سے وابستہ انفیکشن 55 فیصد ہیں اور یہ تعداد زیادہ آبادی والی پڑوسی ریاستوں سے کہیں زیادہ ہے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق سمتھ فیلڈ فوڈز کیسز کی تعداد یو ایس ایس تھیوڈور روز ویلٹ بحری جہاز اور الیونائس کے شکاگو میں کوک کاؤنٹی جیل سے آگے نکل گئی ہے۔

یہ اعدادوشمار ہسپتال میں سمتھ فیلڈ کے پہلے ملازم کی وفات کے ایک دن بعد جاری کیے گئے تھے۔ اس ملازم کی اہلیہ انجیلیٹا نے بی بی سی کو ہسپانوی زبان میں بتایا ’انھیں وہیں سے یہ وائرس لگا تھا۔ اس سے قبل وہ بہت صحتمند تھے۔‘

انجیلیٹا کا یہ بھی کہنا تھا ’مرنے والوں میں صرف میرے شوہر ہی نہیں اور بھی کئی لوگ ہوں گے۔‘

ریپبلکن لیڈر شپ کے زیر قیادت یہ ریاست ان پانچ امریکی ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں کسی طرح کی پناہ گاہ تعمیر کرنے کا حکم نہیں جاری کیا گیا۔

کورونا وائرس کی عالمی وبا نے اس ریاست میں موجود معاشرتی تفریق کا پردہ چاک کر دیا ہے۔

جہاں ملک بھر میں بہت سارے سفید پوش تنخواہ دار ملازمین محفوظ پناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں اور گھروں سے کام کر رہے ہیں وہیں سمتھ فیلڈ جیسی فوڈ انڈسٹری سے وابستہ ملازمین کو لازمی طور پر خطرناک ماحول میں رہ کر کام کرتے رہنا ہے۔

Graphic of pigs wearing masks

بروکنگز انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ایڈی ٹومر کہتے ہیں ’یہ ملازمتیں پورے امریکہ میں اوسط ملازمت سے کم ادائیگی کرتی ہیں۔لہذا گھرو ں میں مددگار عملہ، کیشیئر وغیرہ ان سب افراد کو بذاتِ خود جا کر کام کرنا پڑتا ہے اور ان ملازمین میں سے زیادہ تر افریقی امریکن یا ہسپانوی نژاد افراد ہیں۔‘

سمتھ فیلڈ کے ملازمین کی بڑی تعداد تارکین وطن اور مہاجرین پر مشتمل ہے جو میانمار، ایتھوپیا ،نیپال، کانگو اور ایل سلواڈور جیسے مقامات سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس پلانٹ میں 80 مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اوسط فی گھنٹہ اجرت کا تخمینہ 14 سے 16 ڈالر فی گھنٹہ ہے۔ یہ گھنٹے لمبے ہیں، کام سخت محنت طلب ہے اور اکثر ایک پروڈکشن لائن پر کھڑے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ دونوں اطراف سے اپنے ساتھی کارکنوں سے ایک فٹ سے بھی کم فاصلے پر ہیں۔

بی بی سی نے سمتھ فیلڈ کے نصف درجن سے زیادہ موجودہ اور سابقہ ملازمین سے بات کی جن کا کہنا ہے کہ وہ ملازمت پر جانے سے ڈرتے تھے اور ملازمت اور صحت میں سے کسی ایک کو چننا ایک ناممکن انتخاب رہا ہے۔

ایک 25 سالہ ملازم نے، جن کی اہلیہ آٹھ ماہ کی حاملہ ہیں، بتایا ’مجھے بہت سی ادائیگیاں کرنی ہوتی ہیں۔ میرا بچہ پیدا ہونے والا ہے اس لیے مجھے کام کرنا ہے۔ میں بہت پریشان ہوں کیونکہ اگر میرا کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آتا ہے تو میں اپنی بیوی کو نہیں بچا پاؤں گا۔‘

ملک بھر کے فوڈ پروسیسنگ پلانٹس میں کورونا وائرس پھیلنے کی اطلاعات ہیں جس سے امریکہ کی فوڈ سپلائی چین درہم برہم ہو سکتی ہے۔ کولوراڈو میں واقع جے بی ایس کے میٹ پیکنگ پلانٹ کو پانچ ملازمین کی ہلاکت اور 103 تصدیق شدہ کیسز کے بعد بند کرنا پڑا۔ آئیووا میں ٹائسن فوڈز پلانٹ کے دو ملازمین بھی ہلاک ہو گئے جبکہ 148 بیمار ہیں۔

سو فالز جیسی گوشت پروسیسنگ کی بڑی سہولت کی بندش، سپلائی چین میں بڑے پیمانے پر خلل ڈالنے کا باعث بنتی ہے۔ سو فالز پلانٹ کو خنزیر فروخت کرنے والے 550 کسانوں کے پاس اب مویشی فروخت کرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں رہی۔

فیکٹری کی بندش کا اعلان کرتے ہوئے سمتھ فیلڈ کے سی ای او نے گوشت کی فراہمی کے سلسلے میں ’شدید‘ تباہ کن نتائج سے خبردار کیا تھا۔

لیکن سمتھ فیلڈ کے ملازمین، ان کی یونین کے نمائندوں اور سو فالز میں تارکین وطن کی برادری کے حامیوں کے مطابق اس پلانٹ کو بند ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔

ان کا الزام ہے کہ ابتدائی طور پر حفاظتی سامان کی درخواستوں کو نظرانداز کیا گیا، بیمار کارکنوں کو کام جاری رکھنے کا کہا گیا اور وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق معلومات کو ان تک پہنچنے سے روکا گیا، یہ سب جاننے کے باوجود کہ ان افراد کے خاندان اور دوسرے لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔

ہسپانوی زبان کے خبر رساں ذرائع کے مطابق کیو پاسا سو فالز کی بانی، نینسی رینزا کا کہنا تھا کہ وہ ہفتہ بھر سے سمتھ فیلڈ کے پریشان حال ملازمین کے متلعق سن رہی ہیں۔ نینسی پوچھتی ہیں ’اگر وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ کمپنی کام کرتی رہے تو پھر یہ کس کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ یقینی بنائے کہ یہ کمپنیاں وہ سب کچھ کر رہی ہیں جو انھیں ملازمین کی حفاظت کے لیے کرنا چاہیے؟‘

بی بی سی نے اپنے سوالات اور کارکنوں کے الزامات کی ایک تفصیلی فہرست سمتھ فیلڈ کو پیش کی لیکن کمپنی نے انھیں انفرادی معاملات کہتے ہوئے ان الزامات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

کمپنی کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا ’سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملازمین اور کمیونٹیز کی صحت اور حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے۔ وبا کے کنٹرول اور روک تھام کے مراکز (سی ڈی سی) کی سخت ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ہم نے فروری سے مارچ کے اوائل تک سخت پروٹوکول کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا تاکہ ہماری فیکٹری میں کووڈ 19 کے کسی بھی ممکنہ کیس کا مؤثر طریقے سے بندوبست کیا جا سکے۔‘

اس وبا نے جولیا جیسے لوگوں کو بہت متاثر کیا ہے۔ ان کی والدہ دائمی بیماریوں کا شکار ہیں۔۔ اور جولیا یہ سوچ سوچ کر خوفزدہ ہیں کہ ان کے والدین ملازمتوں کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال رہے تھے۔

روتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’میرے والدین میرا سب کچھ ہیں۔ مجھے ان کے بغیر زندگی گزارنے کے بارے میں سوچنا پڑا۔ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے میں اس کے متعلق لوگوں کو بتانا چاہتی ہوں تاکہ ایک ٹریک ریکارڈ موجود رہے کہ کمپنی کیا نہیں کر رہی۔‘

احمد نے نیلہ کو پہلی بار اپنی ایک شفٹ کے دوران سمتھ فیلڈ فلور پر دیکھا۔ انھیں نیلہ پسند آئی اور نیلہ کو احمد کی مسکراہٹ۔ جب احمد نے نیلہ کے متلعق پوچھنا شروع کیا تو انھیں معلوم ہوا کہ وہ دونوں ایتھوپیا کے ایک ہی گاؤں سے ہیں اور وہ دونوں ایک ہی زبان ’اورومو‘ بولتے ہیں۔

یاد کرتے ہوئے احمد کہتے ہیں ’میں بہت پُرجوش تھا۔ اپنی بریک کے دوران میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہا کہ وہ کہاں کام کرتی ہے۔ میں اس کی لائن کے پاس ہی رک گیا۔ میں نے کہا ہیلو، کیا ہو رہا ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ وہ خوبصورت ہے۔‘

احمد، نیلہ کو ایک جدید طرز کے امریکی ریستوران لے گئے۔ پھر وہ دونوں ایک ہفتے کی چھٹی لے کر وسکونسن ڈیلز گئے۔ دونوں کو پیار ہو گیا اور انھوں نے شادی کر لی۔

اب نیلہ اپنے پہلے بچے کے ساتھ آٹھ ماہ کی حاملہ ہیں۔ اگرچہ نیلہ نے دسمبر میں سمتھ فیلڈ میں کام کرنا چھوڑ دیا تھا لیکن احمد نے وبا کے دوران کام کرنا جاری رکھا حالانکہ انھیں خوف تھا کہ وہ اپنی بیوی اور پیدا ہونے والے بچے کو وائرس سے متاثر کر دیں گے۔

نیلہ کو اپنی تیسری سہ ماہی میں چلنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا، اس لیے انھیں احمد کی مدد کی ضرورت تھی۔ وہ ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتے۔

احمد کا کہنا ہے کہ پلانٹ میں موجود ان کے دو دوستوں میں کورونا کی تصدیق ہوئی ہے۔ پھر خود ان میں علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔

نیلہ کہتی ہیں ’سمتھ فیلڈ ملازمین کی پرواہ نہیں کرتے، انھیں صرف اپنے پیسوں کی فکر ہوتی ہے۔‘

کوپر کاراؤے، سو فالز اے ایف ایل، سی آئی او کے صدر کے مطابق یونین کے عہدیداروں نے مارچ کے اوائل میں سمتھ فیلڈ انتظامیہ سے رابطہ کیا تاکہ کارکنوں کی حفاظت کے لیے متعدد اقدامات کیے جا سکیں جن میں شفٹوں اور دوپہر کے کھانے کے نظام الاوقات شامل ہیں۔

ان اقدامات کے حساب سے فیکٹری کے کیفے ٹیریا میں بیک وقت 500 ملازمین کھڑے ہو سکتے ہیں۔ کوپر کا کہنا ہے کہ انھوں نے ذاتی حفاظتی لباس کی بھی درخواست کی جن میں ماسک اور اوور کوٹ، دروازوں اور صفائی کے سٹیشنوں پر درجہ حرارت کی جانچ پڑتال شامل تھی۔

کوپر کے مطابق ’یہ کسی بھی ملازم کے مثبت ٹیسٹ آنے سے پہلے کی بات ہے۔ لیکن انتظامیہ نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے اور کارکنوں کے مطالبات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔‘

Short presentational grey line

سمتھ فیلڈ کیا ہے؟

  • دنیا میں خنزیر کا گوشت پراسیس کرنے والا سب سے بڑا ادارہ
  • 1936 میں ورجینیا، سمتھ فیلڈ میں اسے قائم کیا گیا
  • اس کی ملکیت چینی کمپنی ڈبلیو ایچ گروپ لمیٹڈ کے سی ای او، ارب پتی وان لانگ کے پاس ہے
  • (2018 میں) ملازمین کی تعداد 54000 اور 15 بلین فروخت کا ریکارڈ
  • مزید سہولیات جرمنی، رومانیہ، میکسیکو، پولینڈ اور برطانیہ میں واقع ہیں
  • ڈبلیو ایچ گروپ نے 2013 میں سمتھ فیلڈ کو 4.7 بلین ڈالر میں خریدا تھا

Short presentational grey line

ٹم، فیکٹری میں نئے نئے بھرتی ہوئے تھے جب انھوں نے اپنے ساتھ بیٹھے کسی شخص سے پہلے کیس کے بارے میں سنا تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس ابتدائی اعلان کے بعد کمپنی بالکل خاموش ہو گئی۔

وہ بتاتے ہیں ’ہم نے کوورنا وائرس کی وبا پھیلنے کے متعلق مزید کچھ نہیں سنا۔ ہم نے سوچا یہ اچھا ہے۔‘

پھر 8 اپریل کو جنوبی ڈکوٹا سٹیٹ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے تصدیق کی کہ پلانٹ میں کورونا وائرس کے 80 تصدیق شدہ مریض موجود ہیں۔ متعدد ملازمین نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں یہ ساری معلومات سمتھ فیلڈ انتظامیہ کے بجائے میڈیا رپورٹس سے ملیں۔

جولیا کی والدہ ہیلن کہتی ہیں ’مجھے دوسرے ساتھیوں کے ذریعے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں کچھ لوگوں کے وائرس سے متاثرہ ہونے کے بارے میں معلوم ہوا۔‘

فیکٹری کے مرکزی دروازے پر ایک سفید خیمے کے نیچے درجہ حرارت جانچنے کا سٹیشن بنایا گیا تھا ، لیکن رینزو اور کاراؤے دونوں کے مطابق انھیں بتایا گیا کہ تیز درجہ حرارت والے کارکنوں کو ویسے بھی فیکٹری میں آنے کی اجازت تھی۔ ہیلن کے مطابق اگر ملازمین درجہ حرارت کی جانچ سے گریز کرنا چاہتے تو وہ دوسری طرف والے دروازے سے داخل ہو سکتے تھے۔

لیکن سمتھ فیلڈ نے کئی دیگر تبدیلیاں شروع کیں جن میں ملازمین کے درمیان رکاوٹیں بنانے کے لیے دوپہر کے کھانے والی ٹیبل کی نشستوں کے گرد گتے کی رکاوٹیں، شفٹوں میں تبدیلی اور ہر سٹیشن پر ہینڈ سینیٹائزرز وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن کئی ملازمین نے بتایا اور بی بی سی کو بھیجی گئی تصاویر اس کی تصدیق کرتی نظر آتی ہیں کہ انھیں چہرے پر پہننے کے لیے جو حفاظتی سامان دیا گیا وہ داڑھی کے جال جیسا تھا۔ اور سرجیکل یا این 95 ماسک کی طرح ہوا کے ذرات سے محفوظ نہیں رکھ سکتا تھا۔

کاراؤے کا کہنا تھا ’میں نے سی ڈی سی کی طرف سے ایسا کچھ نہیں پڑھا ہے جس میں کہا گیا ہو کہ آپ کے چہرے پر ایک ہیئر نیٹ بہت اچھا کام کرے گا۔‘

سمتھ فیلڈ نے داڑھی کے جال سے متعلق سوالات کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی مزدوروں کو دیے گئے حفاظتی سامان کی فراہمی کے بارے میں تفصیلات فراہم کیں ، اس کے بجائے انھوں نے لکھا ’سپلائی چین پر دباؤ کے باوجود ہم تھرمل سکیننگ کا سامان اور ماسک حاصل کرنے کے لیے چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔‘

سو فالز سے 30 منٹ کے فاصلے پر منیسوٹا کے علاقے ورنگٹن میں جے بی ایس پلانٹ واقع ہے۔

اسٹار ٹریبیون کے مطابق یہاں یونین کے نمائندوں نے بتایا کہ ان کی کمپنی نے ملازمین کو ’دستانے ، سرجیکل ماسک ،چہرے کی حفاظتی ڈھال اور اوور کوٹ‘ فراہم کیے ہیں۔

یہاں ابھی تک کورونا وائرس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ ٹائسن فوڈز کے ترجمان نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ اگر ان کا کوئی ملازم کسی ایسے شخص سے رابطے میں رہا ہے جس میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے تو ان کی کمپنی پالیسی کے مطابق انھیں ملازمین کو اس بارے میں مطلع کرنا ہو گا۔

Mask in a person's hands

کچھ ملازمین نے اپنے ساتھ پلانٹ میں ماسک لانا شروع کر دیے۔ دوسروں نے خاندان سے الگ ہو کر رہنا شروع کر دیا۔

کالیب 12 سال سے سمتھ فیلڈ میں کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پچھلے دو ہفتوں سے وہ اپنی بیوی، چھ ماہ کی بیٹی اور تین سالہ بیٹے سے دور ایک کمرے میں تنہا رہ رہے ہیں کیونکہ انھیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں وہ ہر روز اپنے ساتھ وائرس گھر تو نہیں لا رہے۔

’میں دروازے کو اندر سے بند کرتا ہوں تو میرا چھوٹا بیٹا دروازہ کھٹکھٹاتا رہتا ہے ’ڈیڈی، آپ باہر آنا چاہتے ہو؟‘ میں اسے کہتا ہوں ’اپنی ماں کے ساتھ جاؤ۔‘

کالیب کہتے ہیں ’میرے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ میں کیا کر سکتا ہوں؟ میں اپنے خاندان کو بچانا چاہتا ہوں۔‘

اگر کالیب جیسے ملازم ملازمت چھوڑ دیتے ہیں تو وہ بے روزگار افراد کی فہرست میں شامل نہیں ہو پائیں گے۔ وکلا کے مطاق کئی خوفزدہ ملازمین ان سے رابطہ کر رہے ہیں جنھیں ڈر ہے کہ اگر وہ بے روزگار افراد کی فہرست میں شامل ہونے کے لیے درخواست بھی دیں تو شاید انھیں الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اس طرح گذشتہ سال ٹرمپ انتظامیہ کے نافذ کردہ نئے قاعدے کے تحت انھیں مستقل رہائش کے لیے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔

کورونا وائرس ایڈ، ریلیف، اور اکنامک سکیورٹی (کیئرز) ایکٹ میں کوئی بھی ایسا شخص شامل نہیں ہو سکتا جو ایسے خاندان کا حصہ ہو جہاں ایک بھی فرد دستاویزات کے بغیر رہ رہا ہو۔

ساؤتھ ڈکوٹا وائسز فار پیس کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور امیگریشن وکیل، تنیزہ اسلام بتاتی ہیں ’وہ کسی بھی چیز کے اہل نہیں ہیں۔انھیں اپنے لیے کھانے کا انتظام کرنے اور باہر کام پر جا کر خود کو خطرے میں ڈالنے میں سے، کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔‘

9 اپریل کو 80 کیسز کے بعد سمتھ فیلڈ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ایسٹر ویک اینڈ پر اچھی طرح سے صفائی کرنے کے لیے پلانٹ تین دن بند ہو گا اور منگل کو پوری طرح سے کام کا آغاز کرے گا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’کمپنی 11 اپریل کو پلانٹ کے ایک بڑے حصے میں آپریشن معطل کر دے گی اور 12 اپریل اور 13 اپریل کو فیکٹری مکمل طور پر بند ہو گی۔‘

لیکن بی بی سی کو ملازمین اور وکلا کے ساتھ انٹرویو کے ذریعے معلوم ہوا کہ سمتھ فیلڈ نے ان تینوں دن بھی ملازمین کو کام کے لیے بلایا۔ رینوزا نے کئی ایسی ویڈیوز اٹھائیں جن میں کاروں سے بھری ہوئی کمپنی کی پارکنگ اور ملازین کو پلانٹ میں داخل ہوتے دیکھا جا سکتا تھا۔

کاراؤے کے مطابق انھیں معلوم ہوا کہ پلانٹ میں تقریباً 60-65 فیصد کام ہو رہا تھا یعنی سینکڑوں ملازمین کام کر رہے تھے۔

ٹم نے ایسٹر ویک اینڈ کے بعد پیر کو بی بی سی کو بتایا ’میں نے ابھی تک کام کرنا نہیں چھوڑا۔ میں نے جمعہ، ہفتہ، اتوار کو کام کیا اور وہ چاہتے ہیں کہ میں آج کام پر واپس آ جاؤں۔ میں گھبرا گیا ہوں۔ میرے پاس اپنی کیفیت بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ لیکن مجھے چار بچوں کا خرچہ چلانا ہے۔ میرے سر پر چھت اس آمدن کی وجہ سے ہے۔‘

سو فالز کے میئر پال ٹین ہایکن کا کہنا تھا کہ سمتھ فیلڈ میں ہونے والی تخفیف کی کوششوں سے وہ متاثر اور مطمئن تھے۔ انھوں نے اعتراف کیا وہ خاصے حیران ہوئے جب انھیں معلوم ہوا کہ پلانٹ ابھی تک کھلا ہے اور کام کر رہا ہے۔

Workers in factory

ان کا کہنا تھا ’جو اقدامات وہ اٹھا رہے تھے ان میں زیادہ شفافیت ہو سکتی تھی۔ عوام تک جو پیغام گیا وہ اصل منصوبے سے مماثلت نہیں رکھتا تھا۔‘

سمتھ فیلڈ نے ملازمین کو 500 ڈالر کا ’بونس‘ دینے کی پیش کش کی تاکہ وہ مہینے کے اختتام تک اپنی شفٹ پر کام کرتے رہیں۔

چلڈرن آف سمتھ فیلڈ کے ساتھ کام کرنے والی سارا تلہون برہھے بتاتی ہیں کہ پہلے ان کی والدہ نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ واپس کام پر نہیں جائیں گی، لیکن بونس کے بارے میں سنتے ہی انھوں نے اپنا خیال بدل دیا۔

تلہون کا کہنا تھا ’ہمارے لیے یہ بہت پریشان کن ہے کہ وہ صرف 500 ڈالر کے لیے واپس کام پر جانا چاہتی ہیں۔‘

اپنے بیان میں سمتھ فیلڈ کا کہنا تھا کہ یہ بونس سمتھ فیلڈ کے #ThankafoodWorker اقدام کا ایک حصہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جو ملازمین کووڈ 19 کے خطرے کے پیشِ نظر یا تشخیص کی وجہ سے کام پر نہیں آ پا رہے، انھیں بھی بونس دیا جائے گا۔‘

جزوی طور پر نامکمل شٹ ڈاؤن اور کچھ حد تک پلانٹ سے سامنے آنے والے کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث 11 اپریل کو جنوبی ڈکوٹا کے گورنر کرسٹی نوئم اور ٹین ہایکن نے سمتھ فیلڈ کو ایک مشترکہ خط ارسال کیا جس میں انھیں اپنے آپریشنز میں 14 دن کا وقفہ لینے کا کہا گیا۔

اگلے دن سمتھ فیلڈ کی قیادت نے اعلان کیا کہ وہ 15 اپریل سے اس کی تعمیل کریں گے، یعنی پلانٹ میں کام کا ایک اور دن باقی تھا۔

کاراؤے کہتے ہیں ’آخری منگل کو کام پر جانے والے ملازمین کو معمول کی اجرت سے دگنی رقم دی گئی، لیکن اچھے سے صفائی نہیں ہوئی تھی۔ وہ اب بھی ایک گندی عمارت میں کام کر رہے تھے۔‘

سو فالز کی فیکٹری میں اچھے سے صفائی کب کروائی گئی تھی، سمتھ فیلڈ نے اس بارے میں سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ انھوں نے بس صرف یہی لکھا کہ ’ہماری سہولیات کو ہر دن اچھی طرح سے صاف کیا جاتا ہے۔‘

Short presentational grey line

جولیا کے والدین نے 14 اپریل سے ستمھ فیلڈ میں کام پر واپس جانا تھا۔ یعنی 14 دن کے لیے فیکٹری بند ہونے سے پہلے والا دن۔

لیکن پھر ہیلن کو کھانسی ہونا شروع ہو گئی۔

اگلے دن جب سو فالز میں ہلکی برف باری جاری تھی، جولیا نے اصرار کیا کہ ان کی والدہ کا ٹیسٹ کرایا جائے۔ لیکن ہیلن نے ’یہ کچھ نہیں ہے‘ کہتے ہوئے جولیا کو روکنے کی کوشش کی۔

جولیا کہتی ہیں ’میری والدہ کو ڈاکٹر کے پاس جانا بالکل پسند نہیں۔‘ لیکن بلاآخر جولیا نے انھیں منا لیا اور ہیلن مقامی ہسپتال کے ڈرائیو ان ٹیسٹنگ سینٹر گئیں۔ انھوں نے ہیلن کے ناک کی دونوں جانب سے نمونہ لیا اور انھیں گھر واپس بھیج دیا۔

ہیلن کہتی ہیں ’اگر میں کووڈ-19 کا شکار ہوئی تو مجھے یہ لازمی طور پر فیکٹری سے لگا ہو گا۔ اس ہفتے میں نے تین مختلف منزلوں پر کام کیا ہے۔ میں نے دو مختلف کیفے ٹیریا سے کھانا کھایا تھا۔ ذرا تصور کیجیے کہاں کہاں سے میرا گزر ہوا ہو گا۔ میں نے کس کس چیز کو چھوا ہو گا۔ کیونکہ میں تقریباً پوری فیکٹری کا چکر لگا رہی تھی۔‘

منگل کے روز وہ کام پر واپس جانے والے تھے۔ عام دنوں کی طرح اس دن بھی جولیا کے والدین صبح چار بجے بیدار ہوئے اور سمتھ فیلڈ فون کر کے بتایا کہ وہ ہیلن کے ٹیسٹ نتائج کا انتظار کر رہے ہیں اس لیے فیکٹری نہیں آ سکتے۔

بلاآخر سہ پہر کے بعد فون آیا۔

جولیا نے اپنی والدہ کے موبائل فون پر میڈیکل ٹیکنیشن سے بات کی جبکہ اس دوران ان کے والدین جولیا کے چہرے پر کوئی ردِعمل تلاش کرتے رہے۔ جب جولیا نے ’کووڈ-19 کے لیے مثبت‘ کے الفاظ سنے تو انھوں نے اپنے والدین کو انگوٹھا اوپر کرکے یہ بتانے کی کوشش کی کہ ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ لیکن ان کے والدین سمجھے اس کا مطلب ہے کہ انھیں کووڈ-19 نہیں ہے اور اسی وقت دونوں نے خوشی سے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔

جولیا اس سے خوفزدہ ہو گئیں اور انھوں نے دونوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہیلن وائرس سے متاثرہ ہیں۔ جولیا کے والد باورچی خانے کی جانب چل دیے جہاں جولیا نے انھیں آنسو پونچھتے دیکھا۔

Two people hugging

جس دن ہیلن کو اپنے نتائج ملے، سمتھ فیلڈ پلانٹ کا معاملہ پوری طرح سیاسی بن گیا۔ میئر ٹین ہایکن نے گورنر نوئم سے باضابطہ طور پر گزارش کی کہ وہ سو فالز کے آس پاس کی کاؤنٹیوں کے ساتھ ایک الگ مرکز کے لیے شیلٹر کی تعمیر کا حکم دیں۔

گورنر نے دونوں درخواستیں ماننے سے انکار کر دیا۔

کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافے کے باوجود، نوئم نے جنوبی ڈکوٹا میں بھی شیلٹر بنانے کے آرڈر جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ گورنر کا کہنا تھا کہ ’اس طرح کے حکم سے سمتھ فیلڈ میں وائرس پھیلنے سے نہیں روکا جا سکتا تھا۔‘

وہ کہتی ہیں ’یہ بالکل غلط ہے۔‘

اس کے بجائے گورنر نے ہائیڈرو کلوروکوئن کے پہلے ریاستی ٹیسٹ کی منظوری دے دی، ایک ایسی دوا جس کا حوالہ اکثر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کورونا وائرس کے ممکنہ علاج کے طور پر دیتے رہے ہیں۔

یہ وہی دن تھا جب سلواڈور سے تعلق رکھنے والے اگستین روڈریگ مارٹنیج، ایک خاموش طبع اور مذہبی شخص، اکیلے ہی ہسپتال میں کوورنا سے جنگ ہار کر دم توڑ گئے۔ ان کی عمر 64 برس تھی۔ اور سمتھ فیلڈ فوڈز سے جڑی کوورنا وائرس سے ہونے والی پہلی اموات میں ان کا شمار کیا جاتا ہے۔

ان کی ایک دہائی کی دوست رینوزا کہتی ہیں کہ انھوں نے شاذ و نادر ہی خنزیروں کی ٹانگیں کاٹنے والی اپنی ناروا ملازمت کے بارے میں شکایت کی ہو گی۔ وہ 24 سال سے اپنی اہلیہ انجلیٹا سے شادی کے بندھن میں بندھے تھے۔

انجلیٹا کا کہنا ہے کہ جب ان کے شوہر نے ان چھوئے لنچ باکس (جو انھوں نے صبح بنا کر دیا تھا) کے ساتھ گھر آنا شروع کیا تو انھیں لگا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔

فیکٹری میں عوامی طور پر کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آنے کے سات دن بعد، یکم اپریل کو ان میں کوورنا وائرس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔ پہلے ان کے سر میں درد تھا، پھر درد اور سردی لگ رہی تھی۔ اس کے بعد سانس لینا مشکل ہو گیا۔ انجلیٹا کے مطابق فیکٹری میں کام کے آخری دن، وہ بخار کی حالت میں فرش صاف کر رہے تھے۔

اتوار تک ان کی حالت ایسی ہو گئی کہ وہ سانس نہیں لے پا رہے تھے۔

انجلیٹا انھیں ہسپتال لے آئیں لیکن انھیں ساتھ جانے کی اجازت نہیں تھی۔ انھیں اپنے پادری کے ذریعے معلوم ہوا کہ اگستین کو فورا ہی وینٹیلیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ 14 اپریل کو ان کی ہلاکت سے پہلے تک 10 دن وہ وینٹیلیٹر پر رہے۔

وہ کہتی ہیں ’میں انھیں ہسپتال لے گئی اور خالی ہاتھ واپس آئی۔ اب میرے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔‘

شوہر کو کھونے کے غم کے ساتھ انجلیٹا فیکٹری بند نہ کرنے پر سمتھ فیلڈ فوڈ سے ناراض بھی ہیں۔ روتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’وہ ہماری جان سے زیادہ اپنے پیسوں کی پرواہ کرتے ہیں۔ مالکان ہمارے درد کی پرواہ نہیں کرتے۔ مائیں اپنے بچوں کے لیے رو رہی ہیں۔ بیویاں اپنے شوہروں کے لیے رو رہی ہیں۔ کتنے ہی ملازمین وہاں سے وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔‘

73 سالہ بیوہ نے یہ بھی بتایا کہ انھیں بھی کھانسی شروع ہو گئی ہے۔

Short presentational grey line

جولیا کی والدہ میں کوورنا وائرس کی تشخیص کے دو دن بعد اگلی صبح جولیا سردرد، کھانسی اور خشک گلے کے ساتھ اٹھیں۔

اس وبائی بیماری کے ان کی زندگی میں آنے کے بعد پہلی مرتبہ وہ اس رات سکون سے سوئیں تھیں لیکن پہلے سے کہیں زیادہ تھکن سے نڈھال حالت میں جاگیں۔

کووڈ ہاٹ لائن پر کال کرنے اور انھیں مطلع کرنے کے بعد کہ وہ ایک سمتھ فیلڈ ملازمہ کی بیٹی ہیں جولیا نے اپنی ماں کی کار میں بچھی نقلی کھال اتار پھینکی۔ سٹیئرنگ وہیل اور گیئر کو جراثیم سے پاک کِیا اور ڈرائیو وے ٹیسٹنگ سائٹ کی جانب نکلیں۔

اس خطرناک صورتحال سے بچنے کے لیے جولیا نے ایک ماہ قبل مقامی اخبار کو ٹپ بھیجی تھی، لیکن فیکٹری کھلی رہی تھی۔ ان کی والدہ اس وائرس کا شکار ہوئیں تھیں اور والد بھی اب خطرے میں تھے۔ ان کا شہر جنوبی ڈکوٹا میں وبا کا مرکز بن گیا تھا۔ لوگ مر رہے تھے۔ اس سب کے باوجود جولیا اچھے اور مثبت احساسات رکھتیں تھیں۔

اور اب وہ خود بھی وائرس سے متاثرہ ہو سکتی ہیں۔

ہسپتال کی طرف جاتے ہوئے انھوں نے کہا ’میں بس رونا چاہتی ہوں۔‘

پورے شہر میں سمتھ فیلڈ کے ملازمین اور ان کے کنبے ایسے ہی تجربے سے گزر رہے تھے۔

نیلہ اور احمد کو فون آیا کہ احمد وائرس سے متاثرہ ہیں اور ان دونوں نے الگ الگ بیڈ رومز میں خود کو ایک دوسرے سے دور کر لیا۔ وہ ٹیکسٹ کے ذریعے بات چیت کرتے ہیں۔ وہ ان کے لیے ادرک کی چائے بناتی ہیں اور کاؤنٹر پر چھوڑ دیتی ہیں۔ احمد جس چیز کو چھوتے نیلہ جنونی انداز میں اسے وائرس سے پاک کرتی ہیں۔

ٹم نے بتایا کہ منگل 14 اپریل کو سمتھ فیلڈ میں اپنی آخری شفٹ کے دوران انھیں علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں اور اگلے دن ہی وہ ٹیسٹ کرانے پہنچے۔ ابھی انھیں نتائج کا انتظار ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ عملے میں شامل 20 افراد کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔

جس وقت جولیا اپنا ٹیسٹ کروانے کے لیے روانہ ہوئیں، بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مراکز کے عہدیدار،ریاست اور مقامی محکمہ صحت کے نمائندوں کے ہمراہ سمتھ فیلڈ پلانٹ میں داخل ہو رہے تھے۔

ساؤتھ ڈکوٹا کے گورنر کے دفتر کے مطابق سی ڈی سی کے عہدیداروں کو واشنگٹن ڈی سی سے ’صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے‘ وہاں بھیجا گیا تھا تاکہ وہ بتا سکیں کہ پلانٹ کو دوبارہ کھولنے کے لیے کیا کرنا ہو گا۔ اسی دوران سمتھ فیلڈ نے میسوری اور وسکونسن میں اپنی دو اور سہولیات بند کرنے کا اعلان کیا جہاں ’ملازمین کی ایک کم تعداد کے کووڈ 19 ٹیسٹ مثبت آئے تھے۔‘

Illustration of two workers

اگرچہ وہ ٹیسٹنگ سائٹ کھلنے کے صرف 20 منٹ بعد ہی پہنچیں، لیکن جولیا سے آگے 15 کاروں کی ایک لائن لگی تھی۔ اپنی بوتل سے پانی پیتے اور مسلسل کھانستے جولیا نے کہا ’مجھے قطار میں انتظار کرنے سے نفرت ہے۔‘

30 منٹ کے بعد ،وہ ایک بڑے سے گیراج میں لگے اس نشان کے آگے رکیں جس میں ہدایت دی گئی ’اپنا شناختی کارڈ اور انشورنس کارڈ باہر نکال کر رکھیں۔‘

وہ کہتی ہیں ’اب میں بے چین ہوں۔ میں یہ ٹیسٹ نہیں کروانا چاہتی۔‘

وہ اور ان کے آگے والی کار رکی اور ایک مکمل حفاظتی سوٹ، ماسک، دستانے اور چہرے کی ڈھال پہنے محکمہ صحت کے ایک کارکن نے جولیا کے ناک کی دائیں اور پھر بائیں جانب سے نمونہ لیا۔ وہ تھوڑی حیران اور شرمندہ ہوئیں۔

ٹیسٹ لینے والے نے جولیا سے پوچھا ’کیا آپ کو کلینیکس کی ضرورت ہے؟‘ جولیا نے جواب دیا ’ہاں پلیز۔‘

ان ہدایات کے ساتھ کہ ’گھر جائیں، گھر پر رہیں اور کہیں باہر نہ نکلیں‘ جولیا گاڑی کو سورج کی روشنی میں لے آئیں۔ جولیا نے خود کو سنبھالنے کے لیے ایک پارکنگ والی جگہ پر گاڑی روکتے ہوئے کہا ’یہ عمل اتنا بے چین کرنے والا تھا کہ میں واقعی رو رہی ہوں۔‘

جولیا سٹیئرنگ وہیل پر بیٹھی کاروں کو پارکنگ میں آتے اور جاتے دیکھتے رہیں۔ انھوں نے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کیا کہ اب ان کے گھر والوں کو ایک نئے انفیکشن کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ ان کی قرنطینہ والی گھڑی کو دوبارہ شروع کرنا ہو گا۔ مسکراتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’میں صرف ٹی جے میکس جانا چاہتی ہوں۔‘

اب جولیا کو اپنے والدین اور اس گھر کی طرف توجہ دینے کی ضرورت جسے بنانے کے لیے ہیلن اور جان نے پلانٹ میں گھنٹوں کام کیا۔ اب وہ سب اس گھر میں کم از کم اگلے 14 دنوں تک مل کر قرنطینہ کا وقت گزاریں گے۔

جولیا کہتی ہیں ’اب یہ محض انتظار کا کھیل ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں اس کے بارے میں اپنے دماغ پر زیادہ بوجھ نہیں ڈال سکتی۔ لیکن شاید میں اسی کے بارے میں سوچتی رہوں گی۔‘

پانچ دن بعد جولیا کو ان کے ٹیسٹ کا نتیجہ مل جائے گا۔

(شناخت محفوظ رکھنے کے لیے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں)

۔

[ad_2]
Source link

International Updates by Focus News

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button