کورونا وائرس: امریکی ہسپتال کی ایمرجنسی میں کام کرنے والی نرس کے تجربات
[ad_1]
امریکہ کا شہر نیویارک سٹی اس وقت کورونا وائرس کی وبا سے بری طرح متاثر ہے۔ نیویارک کے ایک ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ میں کام کرنے والی ایک تجربہ کار نرس، جنھیں اس شعبے میں 12 برس سے زائد عرصہ ہو چکا ہے نے نام نہ ظاہر کی شرط پر بی بی سی کو تفصیل سے ان حالات کے بارے میں بتایا جن سے انھیں آج کل گزرنا پڑ رہا ہے۔
آپ نے پچھلے چند ہفتوں میں ایمرجنسی وارڈ میں کیا دیکھا ہے؟
’ہم نے دیکھا کہ ہے ہمارے پاس ایسے مریضوں کی ایک بڑی تعداد آ رہی ہے جن میں کورونا وائرس کی علامات ہیں۔ ان مریضوں میں بخار، کھانسی، بعض اوقات گلا خراب، پھیپھڑوں میں تکلیف، سینے میں درد جیسی علامات ہوتی ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے پاس ایسے مریض بھی آ رہے ہیں جن میں معدے کی بیماریوں مثلاً متلی، قے اور اسہال جیسی علامات ہیں۔ ان نشانیوں کو کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی ابتدائی علامات سمجھا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے مریضوں کی آنکھیں سرخ ہوتی ہیں اورکورونا کی بیماری ان کے چہرے اور آنکھوں سے عیاں ہوتی ہے۔‘
کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟
کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟
کورونا وائرس: سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کا مطلب کیا ہے؟
کورونا وائرس: چہرے کو نہ چھونا اتنا مشکل کیوں؟
کیا کورونا وائرس کی وبا کے دوران سیکس کرنا محفوظ ہے؟
کیا آپ کے پاس ضروری سازو سامان کی تعداد کافی ہے؟
اس سوال کے جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘اس کا مختصر جواب ہے کہ نہیں، ضروری سازو سامان ناکافی ہے۔ آخری روز جب میں ڈیوٹی پر تھی تو ہمارے پاس پمپس نہیں تھے۔ جب ایک مریض آیا تو ہم نے آئی وی تیار کیا۔‘
اس کے ساتھ ایک مشین ہوتی ہے، جو مریض کے جسم میں جانے والی دوا کی مقدار کا حساب رکھتی ہے اور اس کا کام ہوتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ دوا کو انسانی جسم میں جانے سے روکے۔ ہمارے پاس وہ پمپس ختم ہو گئے ہیں۔ ہمارے پاس مریضوں کو بے ہوش کرنے کے لیے صحیح آلات موجود نہیں ہیں۔‘
نرس کا کہنا ہے کہ ’ہمیں اپنی حفاظت کے لیے ضروری سامان یعنی ذاتی حفاظتی سامان بھی کم مل رہا ہے۔ ہمیں ایک این 95 ماسک ملا ہے اور ہمیں کہا جا رہا ہے کہ اسے پانچ شفٹوں میں استعمال کریں۔ اس وبا سے پہلے ہمیں اس سامان کو دوبارہ استعمال نہیں کرنا ہوتا تھا اور ایک بار استعمال کر کے اس پھینک دیا جاتا تھا۔‘
نرس کے مطابق ’اب ہمیں کہا جا رہا ہے کہ اسے اپنی شفٹ کے دوران استعمال کریں اور شفٹ کےخاتمے پر اسے کاغذ کے تھیلے میں بند کریں اور اگلی شفٹ پر اسے دوبارہ استعمال کریں۔ پانچ شفٹوں میں استعمال کے بعد ہم اسے واپس کر کے نیا ماسک لے سکتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ امریکہ میں ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان کے پاس بنیادی ضرورت کی چیزیں ختم ہو رہی ہیں۔
آپ صورتحال سے کیسے نمٹ رہی ہیں؟
‘میں سمجھتی ہوں مجھ سے جتنا بن پاتا ہے میں اس سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہر شفٹ کے اختتام پر وہ مکمل طور پر تھک چکی ہوتی ہیں۔
’میرے پاؤں سن ہو جاتے ہیں، میری ٹانگیں بے حس ہو جاتی ہیں، میرا جسم درد کرتا ہے۔ میں صفائی کے دوران پسینے سے شرابور ہو جاتی ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایسی چیزیں مجھے پریشان نہیں کرتیں لیکن جو چیز میرے لیے پریشان کن ہے وہ یہ ہے کہ کیا میرا خاندان، میرے دوست احباب خیریت سے ہیں؟
’میں اس کو یقینی بنا رہی ہوں کہ میرے خاندان کو معلوم ہو کہ جب آپ گھر سے باہر جائیں تو آپ غیر محفوظ ہیں اور اگر آپ کچھ ہو جاتا ہے یا مجھے کچھ ہو جاتا ہے یا خدا نخواستہ میں مر جاتی ہوں یا پھرآپ بیمار ہو جاتے ہیں تو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کو اکیلے ہی اس کا سامنا کرنا ہوگا۔‘
امریکی نرس کا دعویٰ ہے کہ ہمارے ہسپتال اب مزید مریضوں کو نہیں آنے دے رہے اور تمام مریضوں کو خود ہی اس صورتحال سے نمٹنا ہے۔
‘میں نہیں سمجھتی کہ مجھے کبھی اس طرح کی صورتحال کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ میرا مطلب ہے جب آپ نرسنگ کی تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں تو آپ کے سامنے مختلف صورتحال پیدا کی جاتی ہیں تاکہ اس سے نمنٹے کی تربیت حاصل کی جا سکے لیکن جس صورتحال کامقابلہ ہمیں اب کرنا پڑ رہا ہے اس کی کبھی تربیت نہیں ہوئی۔‘
‘میں اور میرے ساتھی اپنی استطاعت کے مطابق ہرروز اپنی طرف سےاچھا کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔‘
کچھ نرسیں ڈیوٹی کے بعد گھر نہیں جا رہی ہیں
موجودہ صورتحال میں ہم گھروں میں بھی دباؤ کا شکار ہیں۔ ہم ہر وقت اپنےمریضوں، اپنے خاندان کے افراد کے بارے میں سوچتے ہیں اور پریشان ہوتے ہیں۔
کچھ ایسی نرسیں بھی ہیں جو ڈیوٹی کے بعد گھر نہیں جا رہی ہیں کیونکہ گھر میں ان کے بچے ہیں، یا ان کے عمر رسیدہ والدین ہیں۔
امریکی نرس کا کہنا ہے کہ ’خوش قسمتی سے میری صورتحال بہتر ہے کیونکہ میں خاندان سے علیحدہ رہتی ہوں، لیکن ہم سارے بہت دباؤ کا شکار ہیں۔‘
‘ہم چھوٹی چھوٹی چیزوں کا سہارا لے رہے ہیں۔ جیسے کھانے کی ڈیلیوری آتی ہے تو ہم خوش ہوتے ہیں، ہنستے ہیں، ایک دوسرے کو انٹرنیٹ پر بننے والی میمز دکھاتے ہیں اور حفاظتی لباس میں ایک دوسرے کی تصاویر بناتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کیونکہ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
‘گذشتہ ہفتے ہمارا ایک نرس ساتھی کورونا کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گیا۔ وہ نرس مینیجر تھا اور عام طور پر نرس مینیجر فرنٹ لائن پر نہیں ہوتے لیکن وہ بوقت ضرورت ہمیشہ مدد کو آتا تھا۔‘
ہم باتیں کرتے ہیں کہ وہ جسمانی طور پر کتنا فٹ تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیشہ سب سے پہلے مدد کے لیے تیار ہوتا تھا اور وہ حقیقی طور پر ایک ٹیم پلیئر تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں کی مدد کرتے ہوئے اور کورونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیا۔‘
آپ کو کیا چیزراتوں کو جگائے رکھتی ہے؟
امریکی نرس کا کہنا ہے: ‘اس وبا کے حوالے سے میرے بہت خدشات ہیں خصوصاً نیویارک کے بارے میں۔ ہم یہاں نیو یارک میں سب سے پہلے اس وبا سے متاثر ہوئے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ ہم پورے ملک کے لیے ایک معیار قائم کریں گے کہ اس موذی وبا سے کیسے نمٹنا ہے۔
‘مجھے ڈر ہے کہ ابھی صورتحال مزید خراب ہو گی اور ابھی سے ہمیں ضروری اشیا کی قلت ہو رہی ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے خدشہ ہے ہم جنگ کی صورتحال میں جا رہے ہیں جہاں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کس مریض کو اولیت دینی ہے اور کس کو بچانے کی کوشش نہیں کرنی۔ مجھے یہ صورتحال بہت پریشان کر رہی ہے۔
وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ مجھے اس کا بھی ڈر ہے کہ ہماری تمام ضروری اشیا کی رسد ختم ہو جائے گی اور ہمیں چوبیس گھنٹوں تک کام کا حکم دیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے؟ میری ساتھیوں کو نادیدہ صورتحال کا خوف ہے۔‘
آپ ایسے لوگوں کو کیا پیغام دیں گی جو فرنٹ لائن پر نہیں ہیں؟
اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘ایسے تمام لوگوں کو میرا پیغام ہے جو صحت کے شعبے سے وابستہ نہیں ہیں کہ وہ گھروں میں رہیں۔ مجھے ذاتی طور پر گھر میں بند ہونا ناپسند ہے لیکن موجودہ صورتحال میں یہی بہتر ہے۔
‘یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ آپ کو بیمار ہونا ہے۔ اس موقع پر کورونا وائرس سے مرنے کے امکانات انتہائی زیادہ ہیں۔ میرا یہ بھی لوگوں کو پیغام ہے کہ وہ کسی مغالطے میں نہ رہیں کہ کورونا وائرس صرف ان کو متاثر کرتا ہے جن کے جسم کا مدافعاتی نظام کمزور ہے۔
بوڑھے، جوان سب کورونا کے نشانے پر ہیں۔
کورونا یہ نہیں دیکھتا کہ آپ کون ہیں۔ وہ کسی کو نہیں بخشتا، میرا پیغام ہے گھروں میں رہیں۔
آنے والے ہفتوں میں آپ کی کیا توقعات ہیں؟
امریکی نرس نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خیال میں یہ وبا مئی یا جون تک رہے گی۔
’ہم ہیلتھ کیئر میں کام کرنے والے لوگ خصوصاً نیویارک میں کام کرنے والے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ وبا پورے موسم گرما تک چلے گی۔‘
میں سمجھتی ہوں کہ اس پر قابو پانے کے لیے پورے ملک کا لاک ڈاؤن کرنا پڑے گا اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ گھروں میں کھانا پہچانے کی سہولت بھی ختم ہو جائے گی سوائے ضروری عملے کے لیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ‘ضروری عملے سے میری مراد پولیس، نرسیں، ڈاکٹر اور ایسے لوگ ہیں جن کا اس وبا پر قابو پانے کے لیے گھروں سے نکلنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ تمام لوگوں کو گھروں کے اندر بند ہونا پڑے گا۔ یہی ایک طریقہ ہے اس پر قابو پانے گا۔ اگر ایسا نہیں ہو گا تو اس وبا کا خاتمہ نہیں ہو پائے گا۔
Source link
International Updates by Focus News